امریکہ اور چین کے درمیان جغرافیائی سیاسی رقابت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ شدت غیر جانبداری کی گنجائش کو کم کر رہی ہے۔ مذکورہ دونوں طاقتوں کے درمیان رسہ کشی میں تیزی کا بھی امکان ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ جیسے جیسے ان ممالک کے درمیان مقابلہ شدت اختیار کرتا جائے گا‘ پاکستان کو دو بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ متضاد مفادات کے درمیان پھنسنے سے بچنے کے لئے‘ پاکستان کو کسی ایک ملک کا اتحادی ہونے جیسا حتمی انتخاب کرنا ہوگا اور یہ فیصلہ چار جہتوں پر مشتمل ہونا چاہئے۔ معاشی انحصار‘ سلامتی کے مضمرات‘ داخلی حالات و سیاست اور رائے عامہ۔ پاکستان کو ممکنہ خطرات کے مقابلے میں معاشی فوائد کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔ سرمایہ کار اور کاروباری ادارے حالات پر نظر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ واضح سمت کی کمی‘سرمایہ کاری میں کمی اور سست معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اقتصادی تاریخ واضح طور پر ظاہر کر رہی ہے کہ وہ ممالک جو کسی ایک ملک سے وابستہ ہوئے بغیر حریف بلاکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں دونوں کی طرف سے تجارتی بندشوں اور
جرمانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان کو درپیش سلامتی کے خطرات کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ کون سی بڑی طاقت سب سے زیادہ مؤثر تحفظ اور معاشی فوائد فراہم کر سکتی ہے۔ مزید برآں‘ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو چین یا امریکہ کے ساتھ اتحاد کے داخلی مضمرات پر احتیاط سے غور کرنا چاہئے۔ اس جائزے میں معاشی اثرات‘ سیاسی استحکام اور رائے عامہ کا تجزیہ شامل ہونا چاہئے تاکہ ایک اچھی طرح سے باخبر اور اسٹریٹجک صف بندی کو یقینی بنایا جاسکے۔امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے غیر مستحکم جغرافیائی‘ جغرافیائی منظر نامہ پیدا کیا ہے۔ یہ دشمنی دنیا بھر میں پراکسی تنازعات میں تیزی سے ظاہر ہو رہی ہے‘ جس سے عدم استحکام کو ہوا مل رہی ہے اور وسیع پیمانے پر تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ پراکسی جنگوں کا میدان جنگ بن چکا ہے‘ جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ایک فریق کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ روس اور ایران مخالف دھڑوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ شام‘ یمن اور لبنان جیسے ممالک ان پراکسی تنازعات سے تباہ ہو چکے ہیں۔ بحرہند و بحرالکاہل میں امریکہ اور چین کے درمیان اثر و رسوخ کے لئے مسابقت شدت اختیار کر گئی ہے اور دونوں طاقتیں خطے میں اتحاد اور فوجی اڈوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ تائیوان‘ فلپائن اور ویت نام جیسے ممالک اس رقابت کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ افریقہ تیزی سے نیا محاذ بن رہا ہے۔ سوڈان‘ ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو اور موزمبیق جیسے ممالک میں بیرونی عناصر کی مداخلت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ممکنہ پراکسی تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ روایتی پراکسی جنگوں کے علاؤہ امریکہ اور چین سائبر ہتھیاروں کی دوڑ میں مصروف ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر ہیکنگ اور غلط معلومات پھیلانے کی مہم چلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ صورتحال ڈیجیٹل میدان جنگ اور اِس میں موجود تناؤ کو بڑھا سکتی ہے اور عالمی نظام کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کے مرکز کے طور پر تائیوان خاص طور پر سائبر حملوں کے خطرات سے دوچار ہے اور دونوں ممالک اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی کوریا اکثر کراس فائر میں پھنس جاتا ہے اور اسے دونوں جانب سے سائبر خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ جاپان خطے میں امریکہ کے اہم اتحادی
کی حیثیت سے چینی سائبر حملوں کا ممکنہ ہدف ہے۔ امریکہ کے قریبی اتحادی آسٹریلیا کو ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے عناصر کی جانب سے بڑھتے ہوئے سائبر خطرات کا سامنا ہے جن کا تعلق ممکنہ طور پر چین سے ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے پاس جدید ترین سائبر حملوں کے خلاف دفاع کرنے کے لئے وسائل کی کمی ہے‘ جس کی وجہ سے وہ دونوں سپر پاورز کے استحصال کا شکار ہیں۔ تاریخی شواہد اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ بڑے بین الاقوامی تنازعات یا تنازعات میں غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والی قوم کو دونوں مخالف فریقوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا (سرد جنگ کے دوران‘ غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرنے والے ممالک کو امریکہ اور سوویت یونین دونوں کی طرف سے معاشی اور سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا)۔ مضبوط اور پائیدار اتحاد یا اسٹریٹجک شراکت داری کو فروغ دینے میں ناکامی بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی ریاست کی صلاحیت کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہے۔ پاکستان کے معاملے میں‘ اس طرح کی کمی ملک کو بیرونی جارحیت کا شکار بنا سکتی ہے‘ جس سے قومی سلامتی اور خودمختاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)