سکول کو واپسی؟

تعلیم کا جدید تصور مائیکرو سکول ہیں اور اگر پاکستان کے فیصلہ ساز اس جدید تصور کو اپناتے ہیں تو اس سے سکول نہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کر پائے گی۔ صوبائی سطح پر ہونے والے اقدامات میں قابل ذکر وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ اقدام ہے جنہوں نے حال ہی میں صوبے میں 300 مائیکرو سکول کے قیام کی منظوری دی اور اس مقصد کے لئے 80 کروڑ (800 ملین) روپے مختص کئے جو شعبہ تعلیم کو دیا جانے والا اضافی بجٹ ہے۔ ان سکولوں کا مقصد نیم خود مختار سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایس ای ایف) کے ذریعے سکول نہ جانے والے 3 لاکھ بچوں کو داخلہ دینا ہے۔ ابتدائی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تین سو سکولوں میں سے پچاس سکول پہلے ہی کام کر رہے ہیں جبکہ 45کراچی میں اور 5 سیہون شریف میں فعال ہیں۔ سیہون شریف وزیراعلیٰ کا آبائی شہر ہے۔ ڈیجیٹل مائیکرو سکول درحقیقت غیر رسمی سکول ہیں جو اٹھارہ ماہ میں تیز رفتاری سے نصاب مکمل کرواتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران‘ داخلہ لینے والے طلبہ آئی پیڈ / جدید الیکٹرانک آلات کا استعمال کرتے ہوئے زبانیں (انگریزی‘ اردو اور ممکنہ طور پر سندھی) اور ریاضی و سائنس کے بنیادی تصورات سیکھتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے‘ مذکورہ سکول کسی گھر کے ایک چھوٹے کمرے یا کرائے یا کمیونٹی کے عطیہ کردہ کمرے میں قائم کئے جاتے ہیں‘ جہاں زیادہ سے زیادہ تیس طلبہ کو اکٹھے تعلیم دی جا سکے۔ یہ غیر رسمی ہوم سکولنگ جیسا عمل لگتا ہے‘ جس میں بڑا فرق یہ ہے کہ طلبہ کو کتابوں کے بجائے الیکٹرانک آلات جیسا کہ آئی پیڈ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں تدریس اور سیکھنے سکھانے کا طریقہ روایتی سکولوں سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہر کلاس کا دورانیہ دو گھنٹے اور سکول کا روزانہ دورانیہ کم از کم چار شفٹوں پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے خواندہ ہو سکیں۔ طلبہ کو آئی پیڈز اپنے گھروں میں لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی کلاس کے اختتام پر انہیں ٹیچر کے حوالے کردیں گے۔ داخلے کی اہلیت کے حوالے سے سات سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچے جو فی الحال سکولوں سے باہر ہیں انہیں اِن مائیکرو سکولوں میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ ان سکولوں سے مختصر کورسز کی تکمیل کے بعد‘ طلبہ کو رسمی تعلیمی نظام یعنی مرکزی دھارے کے سکولوں میں داخلہ ملنا چاہئے تاہم اس حوالے سے انتظامات کرنا ابھی باقی ہیں۔سوال یہ ہے کہ سکول نہ جانے والے بچوں تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ یہ منصوبے کا سب سے مشکل پہلو ہے۔ قریب ایک دہائی قبل برطانوی امدادی ادارے ”یو کے ایڈ“کے تعاون سے ”ایجوکیشن فنڈ فار سندھ“ کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد سندھ کے تین علاقوں کراچی‘ خیرپور میرز اور قمبر شہداد کوٹ میں سکول نہ جانے والے بچوں کو داخلہ دینا تھا۔ مذکورہ حکمت عملی میں سکول نہ جانے والے حقیقی بچوں کی نشاندہی کرنا‘ قریبی نجی سکولوں کا پتہ لگانا اور پھر ان کی فیسوں‘ کتابوں اور یونیفارم کے اخراجات پورا کرکے ان کا سکولوں میں اندراج کرنا شامل تھا۔ ان بچوں کی شناخت کے لئے منصوبے میں دو ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار پر انحصار کیا گیا۔ ایک بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) اور دوسرا تھرڈ پارٹی سروے۔ کوششوں کے باوجود‘ اس منصوبے کو دو سالوں میں صرف دو لاکھ بچوں کو داخل کیا جا سکا۔ طالب علموں کے اعداد و شمار کی نگرانی اور جانچ پڑتال کے دوران یہ پتہ چلا کہ سکول نہ جانے والے بچوں کے طور پر شناخت کئے جانے والے آدھے بچے پہلے ہی دوسرے سکولوں میں داخل تھے اور نادانستہ طور پر وہ اس نئے پروگرام میں شامل ہوگئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک سال میں سکول نہ جانے والے تین لاکھ بچوں کو داخلہ دینا آسان کام نہیں۔ چھ سو اساتذہ کی بھرتی اور تربیت‘ سروے کرنا اور اتنے کم وقت میں لاجسٹکس کا انتظام واقعی بڑا چیلنج ہے۔پاکستان میں سکول نہ جانے والے 2 کروڑ 62 لاکھ بچوں کے ساتھ‘ غیر رسمی تعلیم کے ماڈلز پر توجہ مرکوز کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں بیس سے زائد پروگرام متعارف کرائے جا چکے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب رہے۔ کچھ کو مکمل ہونے سے پہلے بند کر دیا گیا اور کچھ تبدیل شدہ شکلوں میں آج تک جاری ہیں۔ اس وقت ملک کے آٹھ فیصد تعلیمی ادارے جن کی تعداد 25 ہزار 106 ہے غیر رسمی تعلیمی ادارے ہیں۔ ان کے علاؤہ مدارس یعنی مذہبی سکولوں کی تعداد 14 فیصد ہے جو 43 ہزار 613 مدرسے ہیں۔ غیر رسمی تعلیمی اداروں کو فعال رکھنا حکومت اور نجی شعبے کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس مستقل جگہ اور مالی و دیگر ضروری وسائل نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں توسیع بھی نہیں ہو رہی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اصغر سومرو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
 وقت ہے کہ صرف غیررسمی سکولوں ہی کو نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے تبدیل کیا جائے اور تعلیم سے متعلق ترجیحات کو درست کیا جائے‘ جس میں شفافیت‘ احتساب اور طویل مدتی ویژن بھی شامل ہونا چاہئے۔