بھارت کا علاقائی نکتہ نظر یک طرفہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُسے خاطرخواہ نتائج نہیں مل رہے۔ حال ہی میں مالدیپ کے صدر موئزو کی انڈیا آ¶ٹ مہم کی بنیاد پر جیت اور بھارتی پارلیمنٹ میں نصب متنازع میورل کی وجہ سے نیپال کی ناراضگی کے بعد بنگلہ دیش خطے میں بڑھتے ہوئے بھارت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت جو کہ اپنی نام نہاد ”ہمسایہ پالیسی“ پر فخر کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ علاقائی بالادستی حاصل کرے اور اُس کی خواہش ہے کہ ہمسایہ ریاستوں پر غلبہ حاصل کیا جائے تاہم پانچ اگست کو ڈھاکہ میں پیش آنے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پڑوسی ریاستیں بھارت کی بالادستی کی سیاست کو مسترد کر چکی ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے بھارت کی قریبی دوست اور بنگلہ دیش کی حکمران شیخ حسینہ کو طلبہ مظاہرین نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا جنہوں نے سول سروس کوٹہ کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی ہفتوں تک ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہرے کئے اور ان احتجاجی مظاہروں میں ساڑھے چار سو افراد کی ہلاکت کے بعد حسینہ واجد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا کیونکہ مظاہرین نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ نئی دہلی کے لئے ایک ڈرا¶نا خواب تھا۔ تاریخی طور پر بھارت نے بنگلہ دیش پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا ہوا ہے کیونکہ اس نے 1971ءمیں مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش) کے ٹکڑے کرنے پر اکسایا تھا۔ بھارت نے شیخ مجیب الرحمن اور پھر ان کی بیٹی شیخ حسینہ کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور ان تعلقات کی بنا پر اپنی بالادستی برقرار رکھی۔ شیخ حسینہ کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2009ءمیں شیخ حسینہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان کی مسلسل حمایت جاری رکھی۔ سات جنوری دوہزارچوبیس کو وزیر اعظم مودی نے شیخ حسینہ کو تیسری بار دوبارہ منتخب ہونے کے بعد پہلے سرکاری مہمان کے طور پر خوش آمدید کہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش میں ایک پسندیدہ رہنما کو برقرار رکھنے کو کتنی اہمیت اور ترجیح دی ہے تاہم یہ حمایت ملک کو ایک اسٹریٹجک پس منظر کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تھی۔ حسینہ واجد کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت خطے میں ایک بھارت نواز حکمران سے محروم ہو گیا ہے جس سے بالآخر بھارت کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام اپنے ملک میں بھارت کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں۔ بھارت اب بنگلہ دیش میں اپنے حامی رہنما کی کمی کا الزام امریکہ‘ چین اور پاکستان پر ڈال کر قربانی کا بکرا تلاش کر رہا ہے۔ بھارت کا اندازہ ہے کہ امریکہ اور چین دونوں خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کے مطابق چین کے لئے ڈھاکہ کا زوال بنگلہ دیش میں اپنے قدم جمانے کا ایک حربہ ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھارت سمجھتا ہے کہ یہ 1971ءکا بدلہ لینے کا طریقہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈھاکہ کے سقوط میں بیرونی قوتوں کا کوئی کردار تھا یا نہیں یہ واضح نہیں اور ایسی معلومات سامنے آنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ یہ درحقیقت بھارت کی ناکامی ہے۔ جب بنگلہ دیش کے عوام اور سیاسی جماعتوں نے شیخ حسینہ کی مخالفت کی تو بھارت نے مسلسل شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی حمایت کی۔ گزشتہ انتخابات کے دوران بھی حزب اختلاف کی جماعت نے بنگلہ دیشی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس سے حسینہ واجد کے ظلم و ستم کا اظہار ہوا تھا۔بنگلہ دیش کے عوام نے بھارت کو زیادہ حمایت نہیں دی اور اب بھارت کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش خطے میں ایک اور بھارت مخالف ملک بن سکتا ہے۔ ان قیاس آرائیوں میں سچائی سے قطع نظر‘ خطے میں بھارت کا اثرورسوخ پہلے سے زیادہ محدود ہو گیا ہے۔ بھارت ڈھاکہ میں نئے سیٹ اپ کو ترک کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے نئے حکومتی سیٹ اپ اور اس کے عوام سے خیر سگالی حاصل کر سکے گا۔ خاص طور پر جب تک یہ حسینہ کو پناہ فراہم کرتا ہے۔ اگر حسینہ نے بھارت میں بیٹھ کر بنگلہ دیش کی سیاست جاری رکھی تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔بھارت مغرب میں بنگلہ دیش‘ شمال میں چین اور مشرق میں پاکستان کے درمیان واقع ہوگا۔ نیپال‘ مالدیپ اور میانمار کے ساتھ کشیدہ تعلقات بھی نئی دہلی کی تشویش میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بھارت نے جان بوجھ کر سارک کو ناکام اور غیرفعال بنا رکھا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
سارک ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو مو¿ثر علاقائی تعاون فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح بھارت کا کمزور ڈھانچہ اور اندرونی تنازعات اس کے وجود کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کے عوام کا کہنا ہے کہ نئی دہلی اپنے ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں کھلی اور خفیہ مداخلت ترک کرکے جنوبی ایشیا میں مستحکم سیاست اور دیرپا امن کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی مداخلت ہمسایہ جمہوریتوں کو کمزور کرتی ہے اور پرامن بقائے باہمی کے اصول کے منافی ہے جس کی کبھی بھارت نے وکالت کی تھی جبکہ یہ مودی حکومت کی ”نیبر ہڈ فرسٹ“ پالیسی کے بھی خلاف ہے۔ بھارت کی علاقائی پالیسی کی ناکامیاں دوسروں کو مساوی اور خودمختار ممالک کے طور پر ماننے کے بجائے بالادستی کی خواہش رکھتی ہیں۔ یہ ناکامیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ نئی دہلی کو تمام جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعاون‘ استحکام اور اچھے ہمسایہ تعلقات کی حمایت کے لئے اپنی علاقائی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔