سوشل میڈیا اور آن لائن ویڈیو کمپنیوں کی ویب سائٹس یا ایپس آپ کا بہت زیادہ ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرکے تھرڈ پارٹیز سے شیئر کرتی ہیں۔
یہ انکشاف امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) کی جانب سے جاری رپورٹ میں کیا گیا۔
ایف ٹی سی کی رپورٹ میں 9 ٹیکنالوجی ایپس یا سروسز جیسے فیس بک، واٹس ایپ، یوٹیوب، ریڈیٹ، ایمازون، اسنیپ، ٹک ٹاک، ایکس (ٹوئٹر) اور Discord کا جائزہ لیا گیا تھا۔
جنوری 2019 سے 31 دسمبر 2020 کے دوران ان کمپنیوں کی جانب سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر کمپنیوں کا بزنس ماڈل لوگوں کی انگیج منٹ کو ٹریک کرتا ہے، ان کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے اور اس ڈیٹا کے ذریعے تعین کرتا ہے کہ کسی صارف کی فیڈ پر کس طرح کا مواد اور اشتہار نظر آئے۔
اس سے قبل بھی کافی عرصے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے ان کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
اب ایف ٹی سی کی جانب سے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے فیڈرل پرائیویسی ریگولیشنز کی منظوری دی جانی چاہیے۔
ایف ٹی سی کی جانب سے کہا گیا کہ قانون سازوں کو ان کمپنیوں کے بزنس ماڈلز کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ ان میں صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں ان سوشل میڈیا کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ڈیٹا اکٹھا اور شیئر کرنے کا عمل محدود کریں، ٹارگٹڈ اشتہارات پر پابندیاں لگائیں اور نوجوانوں کے لیے حفاظتی اقدامات مضبوط بنائیں۔
رپورٹ کے مطابق صارفین کو اپنے ڈیٹا کے استعمال کے حوالے سے بہت کم اختیار حاصل ہے، بیشتر کمپنیاں صارفین کی مختلف تفصیلات جیسے عمر، جنس اور زبان جمع کرتی ہیں۔
کچھ کمپنیاں لوگوں کی آمدنی، تعلیم اور ازدواجی حیثیت کی تفصیلات بھی جمع کرتی ہیں، اگرچہ اس طرح کی ذاتی تفصیلات زیادہ نقصان دہ نہیں مگر کچھ کمپنیوں کی جانب سے لوگوں کے رویوں کا تجزیہ کرکے ان کی ذاتی زندگی کی تفصیلات کو جمع کیا جاتا ہے۔
اس طرح کی تفصیلات کو کچھ کمپنیوں کی جانب سے لوگوں کو مواد دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کے پلیٹ فارم میں صارفین کی انگیج منٹ بڑھ جائے۔