قرائن و شواہد تو یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کے مسائل میں اسرائیلی موقف کی اندھی تقلید یوکرائن کی روس کے خلاف اور تائیوان کی چین کے خلاف ہلہ شیری سے تیسری جنگ عظیم کا خدشہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے‘یہ خام خیالی ہے اگر کوئی یہ امید باندھ لے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کو جیتنے والی سیاسی پارٹی شاید امریکہ کی موجودہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی لے آئے‘ جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے کوئی امریکی صدر اسرائیل کی کھلم کھلا عسکری امداد سے باز آ یا ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔ امریکہ کے خارجہ امور کے پالیسی ساز چین کو دبانے کے لئے تائیوان کو اگر ایک طرف جدید اسلحہ سے لیس کر رہے ہیں تو دوسری طرف روس کیلئے درد سر پیدا کرنے کے واسطے یوکرائن کو تھپکی دے رہے ہیں۔گو کہ قومی ائیر لائن کی نجکاری میں بعض صوبوں نے اسے خریدنے کا عندیہ دیا ہے پر کئی ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ کوئی بھی صوبہ اپنے محدود مالی وسائل کے پیش نظر یہ ائر لائن نہیں خرید سکتا‘ امید کی جا رہی ہے کہ ارباب اقتدار اس بات کو مدنظر رکھ کر اس کی نجکاری کے وقت اس
بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ اونے پونے نہ فروخت ہو۔ ایک خبر کے مطابق فوج اور فرنٹیئرکور کے کئی دستے اگلے سال اکتوبر تک بلوچستان حکومت کے ڈسپوزل پر رہیں گے‘ سوال یہ پیداہوتاہے کہ صوبائی حکومتیں اپنی اپنی پولیس کے نچلے کیڈرز میں بھرتی اور پھر ان کی فنی تربیت اس نہج پر کیوں نہیں کرتیں کہ صوبوں میں وہ از خود اپنے زور بازو سے ہر قسم کا انتظامی کام سنبھال سکیں اورامن عامہ کو قائم رکھنے کے واسطے انہیں بار بار فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے دستوں کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ ایسا کرنے سے فرانٹیر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اپنے اپنے فرائض منصبی متاثرہوتے ہیں۔یاد رہے کہ یہ دستے ملک کے نہایت حساس علاقوں میں امن عامہ کی
ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں اور ان کو بار بار ریونیو ڈسٹرکٹس میں منتقل کرنا کوئی دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا‘اس عمل سے ان کے اپنے بنیادی فرائض منصبی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔یاد رہے کہ فرنٹیئر کور کے جوان فاٹا سے جڑے ہوئے بارڈر پر عقابی نظر رکھتے ہیں اور اندرون فاٹا بھی وہ امن عامہ کو قائم رکھنے میں پولٹیکل انتظامیہ کے ڈسپوزل پر رہتے ہیں۔آج کل پولٹیکل ایجنٹ کا نام ڈپٹی کمشنر رکھ دیا گیا ہے‘ وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ نہایت بھی صائب فیصلہ ہے کہ چین کی امداد سے کراچی سے لے کر پشاور تک تیز رفتار ریل گاڑی چلانے کے واسطے نیا ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا اور اس طرح ریلوے کے کارگو کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا‘ ان اقدامات سے عام آدمی کا جہاں فائدہ ہوگا وہاں بزنس کمیونٹی بھی اس سے استفادہ کرے گی کیونکہ ریل گاڑی عام آدمی کی سواری ہے اور جب مال گاڑی سے تاجر اپنا سامان کراچی سے ملک کے دور دراز علاقوں کے لئے بھجوائیں گے تو ان کو اپنے مال کی ٹرانسپورٹیشن پر روڈ ٹرانسپورٹیشن کے مقابلے میں کم خرچہ پڑے گا جس سے تجارتی مال کی قیمت فروخت کم ہو جائے گی جو عوام کے واسطے سودمند بات ہو گی۔اب آتے ہیں درج ذیل امورکی طرف۔جیل اصلاحات کی کس قدر ضرورت ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ملک بھر میں صرف 66 ہزار قیدیوں کو جیل میں رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ ان میں ایک لاکھ قیدی پابند سلاسل ہیں‘ ہر صوبے کے ہوم ڈیپارٹمنٹ میں جیل اصلاحات کے بارے میں وقتاً فوقتاً جو کمیشن قائم کئے گئے ان کی سفارشات کی رپورٹیں موجود ہیں پر ان پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا اس کے بجائے کہ حکومت جیل اصلاحات کے بارے میں کوئی اور کمیشن بٹھائے بہتر ہو گا کہ پہلے سے ہی موجود رپورٹوں پر ہی عمل درآمد کر دیا جائے‘شنید ہے کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خریدنے کے لئے اپنے پر تول رہی ہے اور یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ حکومت نئی ائر لائن بنائے اس کے متعلق کئی لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت سے پی آئی اے تو چلی نہیں تو نئی ائر لائن بنانے کی تجویز کیامضحکہ خیز نہیں ہے؟