سیاسی مبصرین کے اندازے درست نکلے ٹرمپ اور کامیلا کے درمیان مقابلہ کانٹے کا تھا‘ امریکہ میں بھی اب مدبر قسم کے سیاسی رہنماؤں کا قحط الرجال نظر آ رہا ہے کہاں ابراہام لنکن‘ جارج واشنگٹن‘ ولسن روزویلٹ اور کہاں ٹرمپ کیسی بلندی اور کیسی پستی۔ دور حاضر میں صرف چین ہی ایک ایسا ملک نظر آ تا ہے کہ جس نے ماو زے تنگ کے بعد بھی کئی ایسے لیڈر پیدا کئے جو اگر ماؤ کے ہم پلہ تو نہ تھے پر بہت قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ضرور تھے‘ سوویت یونین میں بھی سٹالن کے بعد مضبوط لیڈرشپ کا قحط الرجال دیکھا گیا‘ فرانس میں جنرل ڈیگال کے بعد ان جیسا نابغہ دیکھنے میں نہ آ سکا‘ سپین کو جنرل فرانکو اور یوگوسلاویہ کو مارشل ٹیٹو کے بعد ان جیسے رہنما پھر نصیب نہ ہو سکے‘ کیوبا میں کاسٹرو کی رحلت کے
بعد کوئی ان جیسا دلیر اور دبنگ قسم کا لیڈر پھر نہ آ یا‘ انڈونیشیا میں سوئیکارنو‘ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا‘ مصر میں جمال عبدالناصر جیسے رہنما پھرنہ آئے۔ کیا وطن عزیز کو محمد علی جناح اور ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو نہرو جیسے لیڈر پھر نصیب ہوئے اس کا جواب بھی نفی میں ہے‘ برطانیہ کی بھی مثال دیکھ لیجئے گا‘ سرائیلی گلیڈسٹون اور ونسٹن
چرچل کے پائے کے سیاست دان وہاں بھی اب ناپید ہیں۔ یہ درست ہے کہ مندرجہ بالا ممالک میں امور مملکت چلانے وقتاً فوقتاً مختلف رہنما آتے رہے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی پارلیمانی جمہوریت کا ایک خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ہر ہفتے کے دوران ایک روز ایک گھنٹہ اس بات کیلئے مختص کر دیا جاتا ہے کہ اس میں وزیر اعظم بنفس نفیس قومی اسمبلی کے فلور پر اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا از خود جواب دیتے ہیں اسی طرح اسمبلی ہو یا سینٹ ان کی کاروائی کے دوران ہونیوالی تمام تقاریر کو ہرماہ ایک کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے اس ضمن میں انگلستان
کے ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز میں ہونیوالی تقاریر کو Hansard نامی کتاب میں شائع کیا جاتا ہے‘ کیا ہی اچھا ہو اگر مندرجہ بالا دو جمہوریت کے فروغ کیلئے کی جانے والی روایات کو ہم وطن عزیز کے پارلیمان میں بھی نا فذ کر دیں‘ اس ملک کے سیاسی مبصرین اکثر یہ بات طنزاً کیا کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی حکمران اس ملک میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے تو وہ سب سے پہلے امریکہ کی یاترا پر جاتا ہے‘ خدا کرے کہ اس روش کو ترک کیا جائے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار نے ہمیں فائدے کے بجائے نقصان زیادہ پہنچایا ہے جو بات ارباب اقتدار کے سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ کب تک وہ جھولی پھیلائے سعودی عرب‘ عرب امارات اور چین کے دروازے پر قرضوں کے واسطے کھڑے ہونگے۔