زوال ہی زوال  ہے

مایوسی کفر  ہے پرکیا کیجیے جو شعبہ زندگی دیکھو اس میں ا ب اوسط درجے کے لوگ نظر آ تے ہیں ”بقول شخصے نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم  ہے زلف ایاز میں“اب امریکہ میں ابراہام لنکن جیسا صدر نہیں آ تا ٹرمپ جیسا اوسط درجے کا فرد صدر بن جاتا ہے انگلستان میں اب چرچل جیسا نابغہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا اب برصغیر کی سیاست  میں محمد علی جناح جیسی شخصیت کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں سپورٹس کی دنیا میں جھانک کر دیکھیں تو سکواش میں ہاشم خان جیسا کھلاڑی چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو اب نہیں ملے گا کرکٹ میں اب بریڈ جیسا‘ بلے بازنایاب ہے اب ہاکی میں دھیان چند جیسا کھلاڑی  پھر نہیں آیا‘ فٹبال میں میراڈونا کی جگہ کوئی نہیں لے سکا فنون لطیفہ پر اگر ایک نظر ڈالیں تو دلیپ کمار جیسااداکاراور نوشاد علی جیسا موسیقار اور رفیع جیسا گلوکار اب نہیں پیدا ہورہا۔اگلے روز کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر جو دھماکہ ہوا اس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آ رمی نے لے لی ہے‘ بلوچستان وطن عزیز کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ توہے ہی ہے قدرت نے اسے مختلف قسم کی معدنیات سے بھی مالا مال کیا ہوا ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ اس میں واقع گوادر کی بندرگاہ دنیا کی پہلی دو بڑی بندرگاہوں میں شمار ہوتی ہے‘ ان وجوہات کی بنا پر یہ صوبہ ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور سی پیک کی وجہ سے اس صوبے میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں چین کی بھاری سرمایہ کاری سے پاکستان مخالف قوتوں کو بہت تکلیف ہے۔

 کے پیٹ میں کافی مروڑ بھی اٹھے ہیں امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ اس ملک میں اس قدر انتشار پیدا کر دیا جائے کی چینی انجینئر ڈر کر یہاں سے بھاگ جا ئیں‘ بلوچستان کا سماج فاٹا سے کوہی زیادہ مختلف نہیں  ہے اسمیں بھی فاٹاکی طرح قبائلی سرداروں کے تعاون سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کاج اور صوبے میں امن عامہ کے قیام  کیلئے امداد لی جاسکتی  ہے۔