چند برس پہلے تک میکسیکو میں جوز موجیکا نامی ایک ایسا صدر بھی گزرا ہے جو اپنی ماہانہ تنخواہ کا 90 فیصد رفاہی اداروں charities میں تقسیم کر دیتا تھا اس کے پاس اپنی جوذاتی گاڑی تھی وہ ایک پرانی فوکس ویگن تھی وہ جس گھر میں ریٹائرمنٹ کے بعد رہتا ہے وہ چند مرلوں پر محیط ہے وہ جب یہ سنتا کہ لوگوں نے اسے غریب ترین صدر کا خطاب دے رکھا ہے تو وہ جواب میں کہتا میں غریب نہیں ہوں‘غریب وہ ہیں جو دولت پر سانپ بنے بیٹھے ہیں۔ انگلستان کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ دیکھ لیجیے گا کس قدر چھوٹے سے رقبہ پر واقع ہے افسوس ہوتا ہے کہ جو کام ہمیں کرنا چاہئے تھے وہ اغیار کر رہے ہیں۔ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آج کے چندہ تازہ ترین امور کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔امریکی حکومت کاکوئٹہ کے حالیہ خودکش دھماکے پر یہ بیان دیناکہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے‘مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ وہ چور سے کہتی ہے چوری کر اورچوکیدار سے کہتی ہے تو بیدار رہ‘امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ جو بھی پاکستانی سیاسی رہنما صدر ٹرمپ کی شرائط پر کام کرنے کو تیار ہو گا امریکہ اس کی ہر قسم کی معاونت کرے گا‘حقانی کے مطابق ٹرمپ بائیڈن کے مقابلے میں اسرائیل سے زیادہ محبت کرتے ہیں‘ اس سے تو ان مبصرین کا یہ تجزیہ غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ جو یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی آ نے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ خیبرپختونخوا حکومت کا زرعی ٹیکس لگانے کا فیصلہ ایک صائب فیصلہ ہے پراس میں احتیاط کا دامن پکڑنے کی ضرورت ہے صرف بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا یہ نہ ہو کہ چھوٹے ذمہ داروں پر ہی یہ ٹیکس کہیں عائد نہ کر دیا جائے اس قسم کے ٹیکس کو بہت پہلے لگ جانا چاہئے تھا‘پر چلو دیر آ ید درست آ ید۔ اگلے روز سپین وام شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی جو واردات واقع ہوئی ہے‘اس
کے بارے میں عرض ہے کہ سپن وام کہ اس کی ایک وادی جو کیتو وادی کہلاتی ہے بالکل ڈیورنڈلائن کے قریب میں واقع ہے اور اسی راستے سے ماضی بعید میں نادر خان ٹل پر حملہ آورہواتھا‘سپین وام میں فرنٹیئر کور کاایک قلعہ موجود ہے‘ اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جس طرح طورخم میں بارڈر مینجمنٹ کا سسٹم وضع کیا گیا ہے‘ بالکل اسی طرز پر سپین وام اور غلام خان کے مقامات پر شمالی وزیرستان‘انگور اڈہ جنوبی وزیرستان میں اور نوا پاس سابقہ مہمند ایجنسی میں بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔آئیے اب ذراماضی کیان کھلاڑیوں کا ذکر ہو جائے جنہوں نے قومی کھیل ہاکی میں پاکستان کا نام دینا بھر میں روشن کیا‘ وطن عزیز کے مختلف کھیلوں کے بعض کھلاڑیوں نے ایسے ایسے کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے ہوئے ہیں کہ جن کو سیلولائیڈ پر منتقل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ہر برس ان کی تاریخ پیدائش پر ان کے کھیل پر بنائی گئی دستاویزی فلموں کو ٹیلی کاسٹ کیا جائے تاکہ ملک کی نئی پود ان سے کچھ سبق حاصل کر سکے عبد الحمید جو حمیدی کے نام سے جانے جاتے تھے اس پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے کہ جس نے 1960 میں روم اولمپکس میں پہلی مرتبہ گولڈ میڈل جیتا تھا وہ رائٹ ان کی پوزیشن پر کھیلتے تھے ہاکی کے میدان میں ہی جن دوسرے پاکستانی کھلاڑیوں کے نام قابل ذکر ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ حبیب علی کڈی‘ صلاح الدین‘ سمیع اللہ‘ سلیم اللہ‘ حسن سردار‘ شہناز‘ عاطف‘ خورشید عالم‘ تنویر ڈار‘ منیر ڈار اور اختر رسول‘کرکٹ کے کھیل جن کھلاڑیوں نے نام کمایا وہ یہ ہیں عبد الحفیظ کاردار‘ فضل محمود‘ حنیف محمد‘ وقار حسن‘ امتیاز احمد اورحسیب احسن سکواش کے کھیل میں یہ بات بلا کسی خوف و تردد کی جا سکتی ہے کہ پاکستان بلکہ دنیائے سکواش نے ہاشم خان جیسا کھلاڑی پیدا نہیں کیا جن کا تعلق پشاور کے قریب واقع گاؤں نواں کلی سے تھا، اسی طرح ان کے دو بھائیوں اعظم خان اور روشن خان بھی سکواش کے عظیم کھلاڑی تھے اور پھر ماضی قریب میں روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان اور بعد میں جان شیر خان نے بھی سکواش کی دنیا میں بڑا نام کمایا پشاور کے قریب نواب کلی گاؤں سے ہی تعلق رکھنے والے ہدایت جہاں اور قمر زمان بھی اپنے وقتوں کے سکواش کے عظیم کھلاڑی تھے۔