سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں 

جس وقت پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو اس وقت وہ علاقہ جسے علاقہ غیر یا فاٹا کے نام سے پکارا جاتا تھا اور جو جنوبی وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک محیط تھا اس کا تقریبا ً5 فیصد حصہ نا قابل رسائی تھا جس کو آسان زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ باہر سے آنے والاکوئی بھی شخص فاٹا کی جغرافیائی حدود کے اندر اکیلا بغیر مقامی قبائل کی طرف سے فراہم کئے گئے باڈی گارڈ کے گھوم پھر نہیں سکتا تھا ان باڈی گارڈز کو خاصہ دار کہا جاتا جو ہر قبیلے کے مشران یعنی سفید ریش عمائدین نے مقامی حاکم جسے پولیٹیکل ایجنٹ کہا جاتا کو فراہم کئے ہوتے اور ان کو باقاعدہ ماہانہ مناسب مشاہرہ ملتا‘یہ اپنے اپنے قبیلے کی جغرافیائی حدود میں امن عامہ قائم رکھنے اور باہر سے آنے والے ہر فرد کی آمدورفت اور سکیورٹی کے ذمہ وارہوتے‘فاٹا میں جو علاقے شامل تھے‘ ان کے نام تھے وزیرستان‘کرم‘ اورکزئی‘ خیبر‘مہمند اور باجوڑ۔ ان کے علاوہ پشاور کوہاٹ‘ بنوں‘ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے منسلک فرانٹیئر ریجنز بھی فاٹا کے زمرے میں شمارہوتے 1947ء کے بعد پولیٹیکل ایجنٹوں اور ان علاقوں کے مقامی قبائلی مشران کے درمیان باہمی گفت و شنید کے ذریعے1980ء کے عشرے یعنی قیام پاکستان کے 40سال بعد   ایک ایسا دور بھی آ یا کہ فاٹا کا 85 فیصد علاقہ ہر خاص و عام کے واسطے قابل رسائی ہو گیا تھا‘سڑکوں کا ایک جال پورے فاٹا میں پھیل گیا سکول‘ کالج‘ہسپتال غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے کی سہولیات فاٹا کے باسیوں کو فراہم کر دی گئیں اور یہ کام بغیر کوئی گولی چلائے مقامی مشران اور پولیٹیکل انتظامیہ کے درمیان گفت و شنید کے عمل کے ذریعے قرار پایا‘ زندگی کی ہر بنیادی سہولت اس طرح فاٹا کے باسیوں کو ان کے گھر کے دروازے تک پہنچنے لگی بعد میں فاٹا کا نظم ونسق بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو نے لگا‘ فرنگیوں کی اس علاقے میں آ مد سے پہلے جو رواجات موجود تھے فرنگیوں نے انہیں صرف codify کر کے ایف آ ر کی کتابی شکل دی اس پر تنقید درست تھی کہ اس کی شق 40کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس بے پنا اختیارات تھے جو بعض اوقات غلط بھی استعمال ہوئے پر بعد میں ایک اپیلٹ ٹریبونل بنا کر اس اختیار کو کافی حد قتک تحلیل کر دیا گیا تھا‘آج بھی فاٹا میں بسنے والے لوگ اپنے فوجداری اور دیوانی تنازعات پرانے رواجی جرگوں کے ذریعے حل کروا ر ہے ہیں۔جو پشاوری اپنے شہر کو چھوڑ کر معاش کی تلاش میں اپنے شہر سے باہر ہیں اگر وہ آ ج مڑ کر واپس پشاور آئیں تو اس کا بگڑا ہوا حلیہ دیکھ کر کف افسوس ملیں گے انہیں چوک یادگار کا وہ پرانا چبوترا دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ جس کے نیچے کھڑے ہو کر اس ملک کے کئی نامور سیاسی لیڈروں نے تقاریر کی ہیں انہیں وہ ریس کورس گارڈن بھی نہیں ملے گا کہ جس پر ہرہفتے اور اتوار کے روز گھڑدوڑ ہوا کرتی اور ملک بھر سے گھوڑوں کی ریس کے رسیا اس گھڑ دوڑ  میں اپنے اپنے پالتو گھوڑے مقابلے  میں دوڑانے کے واسطے اتارتے اوران پر ریس کے شوقین لوگ شرطیں بھی لگاتے کہ کون یہ ریس جیتے گا ہفتے اور اتوار کے روز ریس کورس گارڈن میں ایک میلے کا سا سماں ہوتا جو دوپہر سے لے کر شام تک رہتا‘پرانے کنگھم پارک جس کا نام جناح پارک رکھ دیا گیا ہے اس گراؤنڈ اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع شاہی باغ میں ایک لمبے عرصے تک فٹبال ٹورنامنٹ بھی ہوا کرتے تھے یہ سب باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں پشاور کے ریڈیو سٹیشن کا شمار برصغیر کے سب سے پرانے ریڈیو سٹیشنوں میں ہوتا ہے اسے پرانے سیکرٹریٹ کی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں 1935میں شروع کیا گیا تھا پرانی عمارت گرا کر سیکرٹریٹ کی نئی بلڈنگ بنانے والوں کا فرض تھا کہ اس تاریخی کمرے کو گرانے سے بچاتے اور اسے محفوظ کر لیا جاتا اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا‘دلیپ کمار اور راجکپور کے آ بائی گھروں کا بھی یہی حشرہونے والاہے‘اگر متعلقہ حکومتی محکمہ نے ان کو فوراً نیشنل ہیریٹج کے تحت میوزیم نہ بنایا۔فورٹ روڈ پر سروسز کرکٹ گراؤنڈ ہوا کرتا تھا جو تاریخی لحاظ سے اس لئے اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں دنیا کے کئی نامور کرکٹ کے کھلاڑیوں نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلے تھے۔