سموگ نے ملک کے کئی علاقوں کو جکڑ کر رکھاہوا ہے‘ خدا کرے بارشوں کا ممکنہ سلسلہ فضائی آ لودگی میں کمی کا سبب بنے اور لوگوں کو کھانسی زکام وغیرہ سے نجات ملے۔ کیا وطن عزیز پہلے ہی کئی مصیبتوں کا شکار نہ تھا جو موسیمیاتی تبدیلی نے اس کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا‘ہمیں یہاں پر فارسی زبان کے معروف شاعر انوری کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو حسب حال ہے اس کا اردو میں ترجمہ درج زیل ہے آسمان سے جب بھی کوئی بلا اترتی ہے گو وہ کسی اور کا مقدر ہوتی ہے پر زمین پر اترتے ہی وہ انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے فارسی زبان میں وہ شعر کچھ یوں ہے۔
ہر بلا کہ آسماں آ ید
گرچہ بر دیگرے قضا باشد
بہ زمین نا رسیدہ می پرسد
خانہ انوری کجا باشد؟
لگتا یہ ہے کہ ایک عرصے سے وطن عزیز بھی جیسے انوری کا گھر بن گیا ہو۔یہ ایوب خان کے بعد بر سر اقتدار آنے آنے والوں کی مشترکہ ذمہ داری تھی کہ وہ ایوب خان کی طرح ملک میں پانی کے ڈیم بنانے کی طرف بھی توجہ دیتے کہ پانی سے بننے والی بجلی صارفین کو سستی پڑتی ہے۔ بیروت ایک مرتبہ پھر تباہ کیا جا رہا ہے۔1980 کی دہاہی میں اسرائیل کی چیرہ دستیوں سے اس کا دھڑن تختہ کیا گیا اور اس خوبصورت شہر کو بمباری سے راکھ کا ڈھیر بنا دیاگیا تھا جو کبھی مشرق وسطیٰ کا پیرس کہلاتا تھا۔آج ایک مرتبہ پھر شاذ ہی کوئی دن ایسا ہو کہ وہاں بارود کی بو نہ اٹھتی ہو‘ انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے کہ جس کا ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے کہ آدمی کو اپنے گندے کپڑے عوام کے سامنے نہیں دہونے چاہئیں‘ یہ محاورہ ہمیں خواجہ آصف کے ساتھ حال ہی میں لندن میں بر سر عام چند لوگوں کے ہاتھوں بے عزتی کے واقعے پر یاد آ یا‘ چند روز پیشتر لندن میں ہی پاکستان کے سابق چیف جسٹس کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ پیش آ یا تھا۔