علم و دانش کی باتیں 

اپنے قارئین کے اصرار پر آج اس کالم کا آ غازہم درج ذیل اقوال زریں سے کرتے ہیں جو علم و دانش کا خزانہ ہیں ۔ زہد کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج نہ کرو اور جو چیز خدا تمہےں دے اس پر اتراﺅ نہیں۔ کسی بندے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ دو چیزوں پر بھروسہ کرے ایک صحت اور دوسرے دولت ‘کیونکہ ابھی تم کسی کو تندرست دیکھ رہے تھے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بیمار پڑ جاتا ہے اور ابھی تم اسے دولت مند دیکھ رہے تھے کہ فقیر و نادار ہو جاتا ہے ۔تقویٰ تمام خصلتوں کا سرتاج ہے ‘کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد‘ دنیا کی تلخی آ خرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آ خرت کی تلخی ہے۔ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے ۔غم آدھابڑھاپا ہے ۔ جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں ۔ قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔ بہترین دولت مندی یہ ہے کہ تمناﺅں کو ترک کرے۔ علم و دانشی کے ان چند شہ پاروں کے بعد اب دور حاضر کے قومی اور عالمی معاملات کا ذرا ہلکا سا ذکر ہو جائے ۔ امکان یہ ہے کہ ٹرمپ جنوری 2025ءمیں وائٹ ہاﺅس کے نئے مکین بن جائیں گے‘ اس وائٹ ہاﺅس میں کہ جس کے کبھی ابراہام لنکن ‘روز ویلٹ اور جیفرسن جیسے نابغے مکین
 ہوتے تھے ۔اگر غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے وہاں پر اپنے سیاسی مخالفین کو گالی گلوچ سے اور چاقو لہرا کر دھمکانے کا چلن نہ چھوڑا کہ جس کا مظاہرہ حال ہی میں دو مرتبہ لندن میں کیا گیا ‘ ایک مرتبہ پاکستان کے وزیر دفاع کو ڈرانے دھمکانے اور دوسری مرتبہ چیف جسٹس آف پاکستان کو دھمکانے کے واسطے ‘تو ہو سکتا ہے کئی ممالک اپنے ملکوں میں داخل ہونے کے لئے پاکستانی باشندوں کو اس بنا پر ویزا دینا ہی بند کر دیں کہ یہ لوگ ہمارا امن عامہ برباد کرتے ہیں‘ لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی اپنے ورکروں کی ذھنی تربیت کے لئے ورکشاپس مقرر کرے اور انہیں سمجھائے کہ ان کو اپنے گندے کپڑے غیر ممالک کی سر زمین پر نہیں دھونے چاہئیں کہ اس سے غیر ممالک میں پاکستان کے بارے میں خراب امیج پیدا ہوتا ہے۔ قرائن و شواہد تو یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کے مسائل میں اسرائیلی موقف کی اندھی تقلید یوکرائن کی روس کے خلاف اور تائیوان کی چین کے خلاف ہلہ شیری سے تیسری جنگ عظیم کا خدشہ ختم نہیں ہوا‘ اگر کوئی یہ امید باندھ لے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کو جیتنے والی سیاسی پارٹی شاید امریکہ کی موجودہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی لے آئے‘ جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے ‘کوئی امریکی صدر اسرائیل کی کھلم کھلا عسکری امداد سے باز آ یا ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔ امریکہ کے خارجہ امور کے پالیسی ساز چین کو دبانے کے لئے تائیوان کو اگر ایک طرف جدید اسلحہ سے لیس کر رہے ہیں تو دوسری طرف روس کےلئے درد سر پیدا کرنے کے واسطے یوکرائن کو تھپکی دے رہے ہیں۔وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ نہایت ہی صائب فیصلہ ہے کہ چین کی امداد سے کراچی سے لے کر پشاور تک تیز رفتار ریل گاڑی چلانے کے واسطے نیا ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا اور اس طرح ریلوے کے کارگو کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا‘ ان اقدامات سے عام آدمی کا جہاں فائدہ ہوگا وہاں بزنس کمیونٹی بھی اس سے استفادہ کرے گی کیونکہ ریل گاڑی عام آدمی کی سواری ہے اور جب مال گاڑی سے تاجر اپنا سامان کراچی سے ملک کے دور دراز علاقوں کے لئے بھجوائیں گے تو ان کو اپنے مال کی ٹرانسپورٹیشن پر روڈ ٹرانسپورٹیشن کے مقابلے میںکم خرچہ پڑے گا جس سے تجارتی مال کی قیمت فروخت کم ہو جائے گی جو عوام کے واسطے سودمند بات ہو گی ۔