وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ تنخواہ دار اور مینوفیکچرڈ طبقے پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا‘ رئیل اسٹیٹ ‘زراعت اور ہول سیلرز سمیت تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا‘ .
آئی ایم ایف اوردیگر عالمی مالیاتی اداروں نےتعریف کی کہ 14 ماہ میں ایک ملک کیسے ان خساروں کو سرپلس میں لے کر آیا اور کس طرح ان اہداف کو حاصل کیا گیا‘ .
عالمی مالیاتی فنڈکے ساتھ مثبت مذاکرات کے باوجود ہم اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتے ‘معیشت کے ساتھ ساتھ میثاق ماحولیات پر بھی دستخط کرنا ہوں گے‘یہ آئی ایم ایف کا نہیں‘پاکستان کا اپنا پروگرام ہے‘ معیشت مستحکم ہورہی ہے ‘وزیراعظم جلد معاشی روڈ میپ پیش کریں گے‘ چاروں وزراءاعلیٰ نے معیشت کی بہتری کے لیے تعاون کا یقین دلایا ہے‘
ملکی بہتری کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا‘ہم ملک کو واپس اس صورتحال پر نہیں لے جانا چاہتے جہاں اس سے پہلے پہنچ گیا تھا‘ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی اور شرح سود میں کمی آگئی‘معیشت کی بہتری کیلئے مقررہ اہداف حاصل کریں گے اور تمام شعبوں میں اصلاحات جاری رہیں گی تاہم ملکی مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔
اتوارکوٹی وی پر اپنے خطاب میں وزیر خزانہ محمد نے چارٹر آف اکانومی اور چارٹر آف انوائرمنٹ پر بیک وقت دستخط کرنے کا مطالبہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ ‘ہول سیلرز اور زراعت سے آمدنی حاصل کرنے والوں سمیت ہر ایک کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا جیساکہ اسے تنخواہ دار اور مینوفیکچرڈ طبقے سے زیادہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔
اپنی تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ مقداری اور معیاری اہداف کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے شفاف ہیں اور آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا پروگرام ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے منعقد کیا جاتا ہے، اس کی حمایت کرتا ہے، مدد کرتا ہے اور فنڈ فراہم کرتا ہے اور گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کے دورہ پاکستان میں کوئی ایسی خفیہ بات نہیں تھی جو زیر بحث آئے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم نے ٹیکس اصلاحات، توانائی اصلاحات، ایس او ایز اصلاحات اور پبلک فنانس پر تبادلہ خیال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور میں آئی ایم ایف کے اس دورے کا خیرمقدم کرتا ہوں جیساکہ بات چیت جاری ہے کیونکہ بات چیت کے ذریعے باہمی اعتماد پروان چڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی مالیاتی معاہدہ ساختی معیار تھا جو ستمبر 2024کے آخر تک نافذ ہو گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پبلک فنانس کے تحت رائٹ سائزنگ کا اپنا منصوبہ شیئر کیا جیساکہ مقصد کے حصول کا روڈ میپ آئی ایم ایف کے ساتھ زیر بحث آیا تھا۔
ایگریکلچر انکم ٹیکس (اے آئی ٹی) کی پیروی کی گئی اور انہوں نے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے چاروں وزرائے اعلیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے موسمیاتی فنانسنگ کی درخواست کی ہے اور مزید کہا کہ اے ڈی بی پہلے ہی موسمیاتی لچک کے لیے 500ملین ڈالر کا قرضہ دے چکا ہے۔
آبادی میں اضافہ ہر صورت برقرار نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی ایمرجنسی اور فضائی آلودگی ہمارے سامنے پڑے ہوئے مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جڑواں خسارے سرپلسز میں بدل گئے اور کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے پیغام موصول ہوا کہ انہوں نے 14ماہ کی مختصر مدت میں معیشت میں تبدیلی لانے پر ملک کی تعریف کی۔ ’’مطمئن ہونے کی کوئی گنجائش نہیں اور راستے پر ہی رہنا‘‘ یہ کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے موصول ہونے والا پیغام بھی تھا۔