روس کی پیشکش، پاکستان رعایتی نرخوں پر خام تیل درآمد کرنے پر آمادہ

پاکستان ماسکو کی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ ماہ سے رعایتی نرخوں پر خام تیل درآمد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ 

ماسکو میں جاری بین الحکومتی کمیشن (آئی جی سی) کے اجلاس کے دوران دونوں فریقین نے جنوری 2025 سے خام تیل کی تجارت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا جس کے تحت پاکستان ہر ماہ جی ٹو جی انتظام کے تحت ایک کارگو درآمد کرے گا۔ 

آئی جی سی اجلاس میں پاکستان کے وفد کی قیادت وفاقی وزیر برائے پاور سردار اویس احمد خان لغاری نے کی۔ 

ماسکو میں اجلاس کا حصہ ایک سینئر سرکاری اہلکار نے دی نیوز کو بتایاکہ "پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) نئے معاہدے کے تحت ایک سال میں روس سے 12کارگو درآمد کرے گا۔ 

انہوں نے مزید کہا، "اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے بھی ماسکو میں جاری آئی جی سی اجلاس کے دوران ادائیگی کے طریقہ کار میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اجلاس میں اس عزم کے ساتھ اتفاق کیا کہ وہ ایک ایسا ادائیگی کا نظام وضع کریں گے جو دونوں فریقین کے لیے قابل قبول ہو تاکہ دونوں ممالک کے درمیان لین دین آسانی سے ہو سکے۔

سرکاری اہلکار نے کہا کہ دونوں فریقین بینکنگ چینلز کے ذریعے ادائیگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پر امید ہیں۔

اجلاس میں دیگر اہم امور پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی، جن میں پاکستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس تک ریلوے کنیکٹیویٹی، $3 بلین کے پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن (پی ایس جی پی) منصوبے کی تکمیل میں تاخیر اور دو طرفہ تجارت کو تیز کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ 

تاہم، اس سلسلے میں حتمی معاہدے آج (4 دسمبر 2024) کو طے پائیں گے جو پاکستان اور روس کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔

سرکاری اہلکار نے مزید کہا کہ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) روسی خام تیل، یورال، رعایتی نرخوں پر درآمد کرے گی، اور ریفائنری کو حاصل ہونے والا منافع اس کی اپگریڈیشن کے منصوبے کے لیے استعمال کیا جائے گا، اس کے علاوہ حکومت کے براؤن فیلڈ پالیسی کے تحت ملنے والی مراعات بھی شامل ہیں۔ 

پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے پاس پی آر ایل کے 64 فیصد شیئرز ہیں، جبکہ باقی عوام، کچھ بینکوں، اور سرمایہ کاری کے اداروں کے پاس ہیں۔ پی ایس او کے شیئر ہولڈنگ میں سے حکومت کے پاس پی آر ایل کے صرف 32 فیصد شیئرز ہیں۔

روسی کارگو جہاز، جس میں پاکستان کے لیے 100,000 ٹن خام تیل تھا، جون 2023 کے پہلے حصے میں عمانی بندرگاہ دقم پہنچا، جہاں اسے دو چھوٹے جہازوں میں اتارا گیا جن میں سے ہر ایک میں 50,000 ٹن خام تیل لے جانے کی گنجائش تھی۔