راولپنڈی میں اعلی شخصیات کی موجودگی میں دو ہفتے کے سخت اور کڑے مذاکرات کے بعد کم از کم 17 آئی پی پیز کپیسٹی پیمنٹ سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
حکومت کی ٹاسک فورس نے 1994 اور 2002 کی 17 آئی پی پیز سے کڑے مذاکرات کیے اور انہیں ہائبرڈ ماڈل ’ٹیک اینڈ پے‘ پر آمادہ کرلیا جس کے باعث حکومت کو 300 ارب روپے کی بچت ممکن ہے جبکہ صارفین کو ساڑھے تین روپے فی یونٹ تک فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر بجلی سردار اویس خان لغاری کی سربراہی میں ٹاسک فورس میں مختلف حکام اور ماہرین شامل ہیں۔ تاہم اس معاہدے پر دستخط کرنے والے آئی پی پیز کی صحیح تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ گزشتہ ہفتے، حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ 17 میں سے 11 آئی پی پیز نے نظرثانی شدہ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
جب نظرثانی شدہ معاہدے کا اعلان کیا گیا تو ٹاسک فورس کے ایک رکن نے تجویز پیش کی کہ مزید تفصیلات آئندہ ہفتے فراہم کی جائیں گی۔ کچھ آئی پی پیز نے غیر رسمی طور پر ٹاسک فورس کی حمایت کرنے والے عہدیداروں کے دباؤ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
حکومت کو 200-300 ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ دونوں اطراف کی قانونی ٹیموں نے مجوزہ نظرثانی شدہ پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی اے) اور نفاذ کے معاہدوں (آئی اے) کا جائزہ لیا، جنہیں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے نئے ٹیرف مقرر کرنے سے قبل کابینہ کی منظوری درکار ہے۔
نظرثانی شدہ معاہدوں پر دستخط کے بعد اس میں شامل آئی پی پیز کی کل تعداد تقریباً 30 ہو گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں حکومت کے زیر ملکیت پاور پلانٹس اور قابل تجدید توانائی کے منصوبے شامل ہوں گے۔
حکومت کو ان نظرثانی سے 3.50 روپے فی یونٹ ٹیرف میں کمی کی توقع ہے، جو کہ بیجنگ سے زیر التواء معاہدے چینی آئی پی پیز کے قرضوں کی تنظیم نو کے بعد ممکنہ طور پر 6.50 روپے فی یونٹ تک بڑھ جائے گی۔