ملک میں گندم کی طرز پر کپاس کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ

پالیسی سازوں کی عدم توجہی اور ناقص پالیسیوں سے ملک میں گندم کی طرز پر کپاس کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

پیشگی مؤثر حکمت عملی اختیار نہ کیے جانے سے گندم کی ریکارڈ درآمدات کے باعث گندم سے جڑی تمام صنعتیں اور کسان ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہونے کے بعد اب بیرون ملک سے ڈیوٹی فری روئی و سوتی دھاگے کی غیر معمولی درآمدی سرگرمیاں کسانوں سمیت پوری کاٹن انڈسٹری بھی ایک بڑے معاشی بحران کی طرف گامزن ہوگئی ہے جس سے ٹیکسٹائل جننگ اسپننگ اور ویلیوایڈیشن سیکٹر میں اضطراب بڑھ گیا ہے۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ گزشتہ برس گندم کی ریکارڈ درآمدات سے رواں سال کسانوں سے سرکاری نرخوں 3900روپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے گندم کی عدم خریداری اور بعد میں گندم کی انتہائی کم اور زیادہ سے زیادہ قیمت فروخت متعین ہونے سے کسانوں سمیت پوری فلور ملنگ انڈسٹری تاریخی معاشی بحران میں مبتلا ہوچکی ہ۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں گندم کی اوسط قیمت فروخت دو ہزار 800روپے فی 40 کلو گرام ہے جس کے باعث اوسطاً تین ہزار 500روپے فی 40 کلو گرام گندم خریدنے اور اس پر بھاری شرح سود کے باعث پوری فلور ملنگ انڈسٹڑی اور سیڈ کمپنیاں غیر معمولی معاشی بحران کا شکار ہیں۔

یہ اطلاعات بھی زیرگردش ہیں کہ کسانوں نے رواں سال گندم کی کاشت پہلے کے مقابلے میں انتہائی کم رقبے پر گندم کی کاشت کی ہے جس سے آئندہ برس ملک کو گندم کے ایک نئے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اندرون ملک روئی اور سوتی دھاگے کی خریداری پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے اور بیرون ملک سے روئی اور سوتی دھاگا ڈیوٹی فری درآمد ہونے سے رواں سال پاکستان میں تاریخ کی سب سے زیادہ روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات متوقع ہیں جس سے قیمتی زرمبادلہ کی ایک بڑی مقدار بیرون ملک منتقلی کے ساتھ کپاس کے کاشت کاروں اور کاٹن جنرز و مقامی ٹیکسٹائل (اسپننگ) انڈسٹری کو بھی ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسکے نتیجے میں آئندہ برسوں کے دوران کپاس کی کاشت میں بھی ریکارڈ کمی کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم نے بتایا کہ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب کے اعداد و شمار کے مطابق 31اکتوبر تک پاکستان میں بیرون ملک سے روئی کی 8لاکھ گانٹھ جبکہ سوتی دھاگے کے 4لاکھ 50ہزار گانھوں کے لگ بھگ درآمدات ہوئی ہیں لہٰذا یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 30نومبر تک روئی کی 11لاکھ جبکہ سوتی دھاگے کی 6لاکھ گانٹھوں کی مساوی روئی درآمد ہوچکی ہے اور یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان بیرون ملک سے اب تک روئی کی 35لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرچکے ہیں اور مزید نئے معاہدے بھی تیز رفتاری کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔

امکان ہے کہ پاکستان کاٹن ایئر 2024-25 کے دوران روئی کی کم از کم 50لاکھ گانٹھ اور سوتی دھاگے کی 10لاکھ روئی کی گانٹھوں کے مساوی درآمدات ہونگی جو ملکی تاریخ میں روئی کی ایک سال کے دوران سب سے زیادہ درآمدات ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیوٹی فری درآمد ہونے کے باعث اندرون ملک روئی اور پھٹی کی فروخت کا عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار ہونے سے ناصرف غلہ منڈیوں میں کپاس اور جننگ فیکٹریوں میں روئی کے وسیع ذخائر دستیاب ہیں بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی بڑی تیزی سے کمی واقع ہونے سے پوری کاٹن انڈسٹری و کاشت کار تشویش میں مبتلا ہیں اور کچھ ہی عرصے پہلے 18ہزار 500روپے فی من فروخت ہونے والی روئی کی قیمتوں میں ایک ہزار روپے فی من سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے اور خدشہ ہے کہ گندم کی طرح کپاس کے خریداروں میں بھی بڑی تیزی سے کمی واقع ہوگی جو پاکستان کی صنعتی و زرعی معیشت کے لیے ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم نے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ بیرون ملک سے روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس کا نفاذ جبکہ اندرون ملک اسے فوری طور پر ڈیوٹی فری کیا جائے تاکہ کاٹن انڈسری اور زراعت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کے ساتھ اربوں ڈالر زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے۔