زیادہ کمائی کرنے والے 5 فیصد افراد 16 کھرب کا ٹیکس چوری کرتے ہیں، کاروائی کریں گے، وزیرخزانہ

چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے ٹاپ 5 فیصد سب سے زیادہ کمائی کرنے والے افراد 16؍ کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں، ان کیخلاف کارروائی کریں گے، رواں مالی سال حکومت کا ٹیکس گیپ 71؍ کھرب روپے، گزشتہ سال 62؍ کھرب تھا۔ 

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ان مالدار ترین افراد کی تعداد 6لاکھ 70ہزار ، اثاثے ، گاڑیاں اور آمدنی سب ہے مگر ٹیکس چور ہیں، اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کی زحمت نہیں کرتے۔ 

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو علی پرویز ملک کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ علاوہ ازیں سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ نے ٹیکس قوانین ترمیمی بل کی منظوری دیدی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024ء کی منظوری دے دی۔ 

نااہل ٹیکس فائلرز بڑی بڑی گاڑیاں، جائیداد، بنگلے نہیں خرید سکیں گے، بینک اکاونٹ کھولنے اور شیئرز کی خریداری پر بھی پابندی ہوگی۔ چیئرمین ایف بی آر کہتے ہیں کہ ٹیکس قوانین میں ترامیم سے پچانوے فیصد لوگ متاثر نہیں ہوں گے۔ 

تفصیلات کے مطابق جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ رواں مالی سال حکومت کا ٹیکس گیپ 7.1؍ ٹریلین روپے ہوگا جو گزشتہ سال 6.2؍ ٹریلین روپے تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا ٹیکس وصولی فوکس سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 5 فیصد افراد پر مرکوز ہے۔ 

راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ تقریباً 33لاکھ افراد ٹاپ 5؍ فیصد کمائی کرنے والے طبقے میں آتے ہیں، ان میں سے صرف 6 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جبکہ باقی 27 لاکھ افراد انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے۔ 

چیئرمین ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ وہ یا تو اس کیٹیگری سے کم درجے کے گوشوارے فائل کررہے ہیں یا بالکل بھی گوشوارے فائل نہیں کررہے۔ ان کی ٹیکس کی ذمہ داری 1.6ٹریلین روپے سے زائد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت تمام کیٹیگریز کو سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 5؍ فیصد سے کم کردیتی ہے تو بھی مجموعی طور پر واجب الادا ٹیکس 140؍ ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ 

آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل خلوص کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے لیے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایف بی آر میں ڈیجیٹائزیشن کے نفاذ کے لیے حکومت کی حکمت عملی کا اعلان کیا تاکہ اعلیٰ مالدار افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جا سکے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اب تک 1,86,000 اعلیٰ مالدار افراد کو ٹیکس نوٹسز بھیجے ہیں، جو خاطر خواہ اثاثے، آمدنی، اور گاڑیاں رکھتے ہیں لیکن مطلوبہ سطح پر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ملک کے سب سے مالدار 5 فیصد افراد، جن کی تعداد 6,70,000 ہے، ممکنہ طور پر ٹیکس چوری کرتے ہیں اور اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کی زحمت نہیں کرتے۔ 

یہ 0.6 ملین مالدار افراد ایف بی آر کے ریڈار پر ہیں۔تاہم، جب وزیر خزانہ سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت ایک منی بجٹ پیش کرے گی یا آئی ایم ایف کو ٹیکس وصولی کا ہدف کم کرنے پر قائل کرے گی، تو انہوں نے براہ راست جواب نہیں دیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کو اپنے خلوص کے ساتھ کیے گئے اقدامات دکھائے گی اور کچھ مفروضات میں تبدیلی آئی ہے کیونکہ مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ تمام تفصیلات ’نیک نیتی‘ سے شیئر کی جائیں گی۔وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی مالیاتی معاہدہ مرکز اور صوبوں کے درمیان طے پایا اور اسے وفاقی یونٹس کے تعاون سے نافذ کیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی نے زرعی آمدنی ٹیکس (اے آئی ٹی) قانون منظور کیا ہے جبکہ دیگر صوبے مختلف مراحل پر پیش رفت کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر نے 29 فیصد کی آمدنی میں اضافہ حاصل کیا، لیکن موجودہ مالی سال کے لیے ہدف 40 فیصد کی بلند سطح پر مقرر کیا گیا تھا۔

چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت کی کہ 1,90,000 نان فائلرز کو چھ عوامل کی بنیاد پر ترجیح دی گئی، جیسے کہ وہ جو سالانہ 1.3 ملین روپے بینک منافع کماتے ہیں، 3 یا اس سے زیادہ گاڑیاں رکھتے ہیں جن کی مجموعی قیمت 10 ملین روپے ہے۔