ایران: قاسم سلیمانی کی موت کے سلسلے میں ٹرمپ کے گرفتاری وارنٹ جاری

ایران نے اس سال جنوری میں اہم ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت کے سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وارنٹ برائے گرفتاری جاری کر دئیے ہیں۔

تہران میں سرکاری وکیل علی القاسی مہر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور 35 مزید افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے اور انٹرپول سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افراد کو گرفتار کرنے میں مدد کریں۔

تاہم انٹرپول کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی درخواست تسلیم نہیں کرے گی۔

ادھر امریکہ میں صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے ایران کا کہنا ہے کہ یہ وارنٹ جاری کرنا پروپگنڈا ہے اور کوئی بھی اسے سنجیدہ نہیں سمجھے گا۔


قاسم سلیمانی عراق میں بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے تھے جس کا حکم صدر ٹرمپ نے دیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ قاسم سلیمانی سینکڑوں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار تھے اور مزید حملوں کی تیاری کر رہے تھے۔

ایران نے جوابی طور پر عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔

مہر نیوز ایجنسی نے علی القاسی مہر کے حوالے سے بتایا کہ ’36 افراد کو قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث پایا گیا ہے۔ انھوں نے اس حملے کا حکم دیا، نگرانی کی یا اس میں شریک تھے۔‘

’ان میں امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے کچھ سیاسی اور عسکری حکام شامل ہیں جن کے وارنٹ برائے گرفتاری جاری کر دئیے گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ ’اس فہرست میں صدر ٹرمپ اولین نمبر ہیں اور ان کی گرفتاری کی کوشش ان کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہے گی۔‘


صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے ایران برائن ہک کا کہنا ہے کہ ہمارے مطابق انٹرپول ایسے مقاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور سیاسی نوعیت کے ریڈ نوٹس جاری نہیں کیے جاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ اس کا قومی سلامتی، بین الاقوامی امن، اور استحکام کو بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ پروپگنڈا ہے اور اسے کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔‘

انٹرپول نے بتایا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایرانی درخواست تسلیم نہیں کریں گے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ اپنے قواعد کے مطابق وہ کسی بھی ’سیاسی، عسکری، مذہبی یا نسل پرستانہ کارروائی میں شریک نہیں ہو سکتے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے وارنٹ برائے گرفتاری جاری کرنا ایک علامتی اقدام ہے تاہم اس سے صدر ٹرمپ کے لیے نفرت ظاہر ہوتی ہے۔