عالمی حکمرانی کے لئے اِختیار کی جانے والی حکمت عملی ”ورلڈ آڈر“ کہلاتی ہے جس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ورلڈ آرڈر ایک ایسے نظام کا نام بھی ہے جو دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کو جائز قرار دیتا ہے اور اِسی کے ذریعے قومیں ایسا بندوبست وضع کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان کی طاقت کا مظاہرہ ہوتی ہیں اور اِسی میں ایک ہدف امن و خوشحالی یقینی بنانے کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔سال 1814ءمیں اُس وقت کی چار بڑی اِتحادی طاقتیں ویانا میں جمع ہوئیں۔ آسٹریا‘ روس‘ پروشیا اور برطانیہ نے نپولین کو شکست دینے کے بعد‘ عالمی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بقائے باہمی کا نظام وضع کیا۔ مذکورہ معاہدے نے بڑے پیمانے پر عالمی امور کو ایک صدی تک منظم کیا حالانکہ کریمین جنگ اور دیگر مقامی تنازعات کی وجہ سے وہاں پیدا ہونے والے انتشار و تنازعات تھے۔ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ اور بسمارک کے ماتحت جرمنی کو مالی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھرنے سے نئے حقائق پیدا ہوئے جنہوں نے اقتدار کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ پہلی جنگ عظیم اس پس منظر کے خلاف برپا ہوئی جب ایک ابھرتا ہوا جرمنی اپنی نئی طاقت کے مطابق مزید مستعد پوزیشن کی تلاش میں رہا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد‘ فاتح ممالک نے جنگ سے حاصل ہونے والی وسائل کو آپس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سلطنت عثمانیہ کا بڑا حصہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا جو برطانیہ‘ فرانس اور روس کو تحفے میں دیئے گئے تھے۔
نیا روس عثمانی ریاستوں میں اپنا حصہ جذب کر کے ’یو ایس ایس آر‘ کے نام سے ابھرا۔ تاہم شکست کے باوجود جرمنی نہ پھیل سکا۔ اِس کے بعد جرمنی کا دوبارہ مقابلہ ہوا اور پھر دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ ان دونوں عالمی جنگوں نے بھی امریکہ کو عالمی معاملات میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے غیرمعمولی مو¿قف سے عالمی سطح نمایاں کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر‘ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے چلنے والا نیا عالمی نظم و ضبط آخر مستقل شکل اختیار کر گیا۔ اس نئے آرڈر میں بنیادی طور پر دو اجزا شامل تھے۔ پہلا یہ کہ جسے سرد جنگ بھی کہا جاتا ہے‘ اس نے ایشیا اور یورپ دونوں ممالک میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان فوجی توازن کو یقینی بنایا۔ دونوں فریقوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے کہ وہ ایک دوسرے کی حدود میں داخل ہو کر کاروائیوں میں حصہ نہیں لیں گے اور ایک دوسرے کے علاقوں اور اتحادیوں کا احترام کریں گے۔ یہ مختلف معاشی و اقتصادی اور سیاسی نظاموں کے مابین کشمکش تھی۔ امریکی تشریح (ویژن) نے جمہوری سیاسی نظام اور آزاد تجارتی معاشی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کی اور اِسے فروغ دیا۔ اس خیال پر یہ یقین رہا کہ امداد اور تجارت کے ان راستوں سے خوشحالی آئے گی اور جنگوں پر غور کرنے کے لئے بھی کوئی قیمت نہیں ہوگی۔ اس نظام نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیادی سیاسی حیثیت اور ڈالر کی تجارت کو پریمیم کرنسی کے طور پر متعارف کیا چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور دنیا کے وسیع و عریض علاقوں تک ٹیکنالوجی کے پھیلاو¿ نے ایک نئے عالمی ڈھانچے (نظام) کی ضرورت میں مزید اضافہ کیا۔ 2008ءمیں موجودہ مالیاتی نظام کے خاتمے سے اس کو مزید تقویت ملی۔ صدر ٹرمپ کے ماتحت امریکہ نے خود ہی موجودہ ورلڈ آرڈر کے بہت سارے پہلوو¿ں کو ختم کردیا ہے۔
چین کی امنگوں اور طاقت کا زور اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو منصوبے کی صورت ظاہر ہوا ہے۔ کسی بھی نئے ورلڈ آرڈر کی کامیابی کے لئے چین کی معاشی طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا اور اسے صرف خواہشات اور مطالبات کے تناظر میں نہیں دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح روس کو بھی ایک بڑی طاقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا اور دیگر ابھرتی طاقتوں کی روس کی اُبھرتی ہوئی حیثیت کو عالمی فیصلہ سازی کا حصہ بنانا ہوگا۔ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے عالمی طاقتوں کو اپنے اپنے مو¿قف پر نظرثانی کی ضررت ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی ورلڈ آڈر اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اُس میں انسانی حقوق کا احترام شامل نہ ہو۔ پانچ عالمی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ جوہری صلاحیت حاصل کرنے والے ممالک کو بھی نئے ورلڈ آرڈ میں مساوی کی حیثیت دیں اور صرف پانچ نہیں بلکہ جوہری صلاحیت رکھنے والے تمام 9 ممالک کو ”نیوکلیئر عدم پھیلاو¿ تنظیم (کلب) میں شامل کریں‘ امریکہ کو بھی قومی حدود کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا اور دوسرے ممالک اور خطوں میں فوجی مہم جوئی سے باز رہنا ہوگا نئے ورلڈ آڈر کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ بڑی طاقتیں یعنی امریکہ اور چین دیگر ممالک اور قوموں کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں اور کامیابی کے معاشی و اقتصادی ترقی کے ثمرات میں دوسروں کو کس قدر شریک کیا جاتا ہے۔ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ جامع ورلڈ آڈر اور اِس کی کامیابی کا حقیقت پسندانہ امکان موجود ہے لیکن جو منتخب کردہ چند افراد تک فوائد اور خوشحالی کو محدود رکھنا چاہتا ہیں وہ دنیا کو ممکنہ طور پر تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر سلمان فریدی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)