سماجی رابطہ کاری کے وسائل کو قصوروار اور ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں۔ ہمیں جس ایک حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے اور یہ کہ سوشل میڈیا ہمارے روزمرہ معمولات کا حصہ بن چکا ہے اِس لئے سوشل میڈیا سے گریز یا اِسے تنقید کا نشانہ بنانا منطقی نہیں بلکہ سوشل میڈیا سے استفادہ اور اِس کے تعمیری و تخلیقی استعمال کے بارے میں سوچ بچار اور کوشش ہونی چاہئے۔ عمومی طرزعمل یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر تنقید ایک معمول بن چکا ہے اور اِس بات میں دو رائے بھی نہیں کہ سوشل میڈیا نے صارفین کو ذہنی‘ نفسیاتی اور جسمانی طور متاثر کیا ہے جبکہ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ کم عمر بچوں اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے یومیہ وقت گزرنا چاہئے‘ اِس سے زیادہ نہیں۔ اِیسے مطالعات بھی ہوئے ہیں جن میں خاص طور پر چھوٹے بچوں پر کمپیوٹر یا الیکٹرانک آلات کے زیادہ اِستعمال کے اَثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور اُن کے دماغ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا گیا ہے۔ جو بچے یا نوجوان اپنا زیادہ وقت کمپیوٹر یا الیکٹرانک آلات کے ساتھ گزارتے ہیں‘ اُنہیں بڑھتی عمر کے ساتھ پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا جن میں اُنہیں تنہائی کا اِحساس بھی شامل ہے کیونکہ وہ اپنے گردوپیش سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ ’سوشل میڈیا‘ کا سب سے نمایاں منفی اور تنقیدی پہلو ’غلط معلومات اور جعلی خبروں‘ سے متعلق ہے کہ اِس کے ذریعے معاشرے میں اطمینان سے زیادہ بے چینی پھیل رہی ہے۔
ٹیکنالوجی سے جڑے نت نئے جرائم بھی معاشرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مسئلہ ہیں کیونکہ بزرگ افراد جب انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن مالیاتی یا دیگر سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں تو اکثر کم علمی یا لاعلمی کے باعث اُن کے ساتھ دھوکہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے ہیںاِس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اگرچہ کام کر رہے ہیں لیکن بہرحال زیادہ کام کی ضرورت ہے۔اِنٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نظر آنے والی اور حقیقی دنیا میں فرق ہوتا ہے اور اِسی فرق کا ادراک‘ اِس ٹیکنالوجی کو سمجھنے اور اِس سے استفادے سے جڑے تجربات کو خوشگوار یا بدصورت بنانے کا مو¿جب بنتا ہے لیکن شاید فوائد کو فراموش کرنا آسان ہے۔ انٹرنیٹ کے بغیر یہ ناگزیر ہے کہ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اور ہمارے آس پاس جو کچھ رونما ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہمیں معلوم ہو سکے البتہ ہر شعبے سے متعلق خبریں اور معلومات ذرائع ابلاغ پر ظاہر نہیں ہوتیں۔ جب ہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بات کرتے ہیں تو ہمیں مختلف قسم کی پابندیاں نظر آتی ہیں اور سوشل میڈیا پر نظر رکھنا کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اِس سلسلے میں کوششیں نہیں ہوئیں بلکہ کئی حکومتی اداروں نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے منفی پیغامات کو ہٹانے کےلئے فعال کردار ادا کیا ہے جو کسی خاص طبقے‘ معاشرے یا قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھے۔ درحقیقت یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ نت نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم معرض وجود میں آ رہے ہیں‘ جن کی چھان بین وقت طلب اور محنت کا کام ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت حکومتی اداروں کی کاروائیوں کی حمایت کرتی ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین نے بنا مطلع کئے اور بنا وجوہات بتائے اُن کے پیغامات ڈیلیٹ کرنے کی شکایات درج کروائی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرنا آسان نہیں۔
اگر کسی ویب سائٹ تک رسائی کو محدود کیا جاتا ہے تو ایسے آلات اور متبادل ذرائع موجود ہیں کہ جن کا استعمال کرتے ہوئے پابندیوں اور رکاوٹوں کو عبور کر لیا جائے جس سے حکومتی پابندیاں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ہے۔ انٹرنیٹ کئی صورتوں میں مفید و ضروری ہوجاتا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال میں صحت و تعلیم کے شعبوں میں انٹرنیٹ نے اہم کردار ادا کیا اور اِس کی وجہ سے کئی سہولیات پیدا ہوئیں‘ جن کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے۔ ایک ماں نے یہ کہانی سنائی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر کسی ڈاکٹر سے فوری طور پر رابطہ کرنے اور اس کی مطلوبہ مشورے کے حصول کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے کو بچانے میں کس طرح کامیاب رہی۔ ایسے وقت میں جب قریب ترین ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں جانا مشکل ہو یا ناممکن ہو اس طرح کی انٹرنیٹ کے ذریعے خدمات آسانیاں پیدا کر سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ کی بدولت معلومات تک فوری رسائی ممکن ہوئی ہے۔ یہ معلومات دنیا کے کسی دور دراز ملک سے لیکر ہمارے قرب و جوار تک ہو سکتی ہے یا پھر لائبریری میں رکھی کسی کتاب کی نقل فوری طور پر حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر معلومات کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کچھ طریقوں سے پریشان کن ہیں۔ پھر بھی‘ نفرت انگیز تقاریر یا مواد‘ جعلی خبریں اور دیگر جارحانہ مواد کو ضبط میں رکھنے کی ضرورت ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)