پاکستان اِنٹرنیشنل ائرلائن کے جہاز ’پی کے 8303‘ کے بارے میں تحقیقات کے بعد جس ایک نکتے پر اتفاق‘ اکتفا اور صبر و شکر کر لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ جہاز کو حادثہ انسانی غلطی کی وجہ سے پیش آیا جبکہ حادثے کے وہ سبھی ضمنی امور فراموش کر دیئے گئے ہیں جنہوں نے حادثے کے محرکات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اِن میں پی آئی اے کا انتظامی نظام‘ جہاز کی تکنیکی خرابیاں‘ شہری ہوا بازی کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد میں کوتاہیاں اور کم ترین حفاظتی انتظامات شامل ہیں جو صرف پی آئی اے ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر شعبوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ‘ جب ہم کسی حادثے کے لئے انسانی غلطی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہوتے ہیں تو اِس سے مراد صرف کسی ایک شخص یا افراد کی غلطی ہی نہیں ہوتی بلکہ اُس میں دیگر کئی عوامل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ۔ہوا بازی کے شعبے کے اندر منظم ناکامیوں کی وجہ خرابیوں کا مجموعہ ”تنظیمی عمل“ کی وجہ سے ہوسکتا ہے‘ جیسے ناقص فیصلہ سازی‘ اے ٹی سی کا احترام نہ کرنا‘ ایس او پیز کی پیروی نہ کرنا‘ غیر مو¿ثر مواصلات‘ حفاظت کے لئے قیادت کی کمی‘ تربیت کے نظام کی کمی وغیرہ ایسی ناکامیاں بھی ہوسکتی ہیں جن کا محرک ناقص ڈیزائن اور تیار کردہ سامان ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے ناقص تنظیمی عوامل اور کام کرنے کے حالات افراد اور ٹیموں کی غلطیوں کے باعث بنتے ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303کے معاملے میں فلائٹ کاک پٹ عملے اور ’اے ٹی سی‘ نے مقررہ قواعد کی پیروی نہیں کی جو مجموعی طور پر نظامی سطح پر پائی جانے والی خامیوں کی واضح نشانی ہے‘اگرکاک پٹ کے عملے کوواضح الفاظ میں انتباہ جاری کر دیا گیا ہوتا کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمدکرے اور اپنی آمد کے راستے کو درست رکھے تاکہ لینڈنگ میں آسانی رہے اور اگر جہاز اُتارنے کے لئے صحیح راستے کو اختیار کیا جاتا تو اس سے یقینی طور پر حادثے سے بچا جاسکتا تھا‘ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کاک پٹ عملے نے وقتاً فوقتاً ملنے والی ہدایات پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی اور نہ ہی قواعدوضوابط کی پیروی کی جو ’ریسورس مینجمنٹ سسٹم‘ کی صریحاً خلاف ورزی تھی‘ اگلی تفتیشی رپورٹ میں یہ چھان بین کرنا پڑے گا کہ ’کاک پٹ عملہ‘ اور کنٹرولر دونوں کی طرف سے کون سی اِنتظامی غلطیاں ‘خلاف ورزی یا غلطیاں کی گئی ہیں‘ بدقسمتی سے جب کوئی ہائی پروفائل حادثہ ہوتا ہے تو‘ اکثر غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں‘ کیونکہ کسی حادثے کا کوئی ایک محرک نہیں ہوتا بلکہ مجموعی نظام اُس حادثے کا باعث بنتی ہے‘ اگر ہم مستقبل میں فضائی حادثات کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ’فلائٹ آپریشنل سسٹم‘ کی صحت اور مجموعی نظام کو بہتر بنانا ہوگا اور ہمیں ’حادثات کی تاریخ‘ سے سبق سیکھتے ہوئے نظم و نسق لاگو کرنا ہوگا‘ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کا ہوا بازی کا شعبہ خرابیوں کا مجموعہ ہے۔
شہری ہوا بازی اور ’پی آئی اے‘ دونوں کے فلائٹس آپریشنز میں حفاظتی کلچر کے لئے قیادت کی کمی ہے جس کے باعث حالیہ حادثہ پیش آیا‘سوال یہ ہے کہ کاک پٹ کے عملے نے معیاری کال آو¿ٹ کے لئے ’اَیس اُو پی‘ پر عمل نہیں کیا؟ وہ عملے کے وسائل کے اِنتظام پر عمل کیوں نہیں کررہے تھے؟ ہمیں کاک پٹ عملے کے حفاظتی کلچر اور حفاظت کے رویوں کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے ‘دوسری بات یہ ہے کہ کیا پی آئی اے کے پائلٹس اے ٹی سی کا احترام کرتے ہیں؟ کیا وہ ’اے ٹی سی‘ کی طرف سے دی جانے والی آراءاور مشوروں کی خاطرخواہ قدر کرتے ہیں؟ لینڈنگ کا حتمی فیصلہ پائلٹ کرتا ہے اور ’اے ٹی سی‘ کی تجاویز کو قبول یا مسترد کرنا بھی پائلٹس کی صوابدید پر ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کراچی پہنچنے پر ٹاور کی جانب سے تین بار متنبہ کیا گیا کہ طیارہ قریب آنے پر بہت اونچا اڑ رہا تھا اور اسے جہاز کے مدار میں نہ اترنے کی ہدایت کی گئی لیکن پائلٹ نے ان تمام ہدایات کو نظرانداز کردیا ‘سوال: کیا یہ پہلا موقع تھا جب جہاز اُڑانے والے (کاک پٹ) عملے نے اِس طرح کے سلوک کا مظاہرہ کیا؟ مذکورہ حادثے سے قبل کیا کسی دوسرے کاک پٹ کے عملے کو وارننگ جاری کی گئی تھی؟ کیا اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ریکارڈ اور رپورٹ کئے جاچکے ہیں؟ کیا پی آئی اے میں ایسے واقعات ریکارڈ کرنے کا نظام موجود ہے؟ کیا پی آئی اے فلائٹ آپریشن سیفٹی آفیسرز نے کاک پٹ عملے کے اس طرح کے غیر محفوظ سلوک کو دیکھا گیا؟ اگر ہم نے حادثات سے سبق نہ سیکھا تو اِس طرح کے حادثات (خدانخواستہ) بار بار رونما ہوتے رہیں گے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ناصر افغان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)