کورونا وبا ءکے باعث معطل تعلیمی سرگرمیاں ’پندرہ ستمبر‘ سے ممکنہ طور پر بحال کرنے پر چاروں صوبوں اور وفاق میں اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے‘ ہمیں یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آتی کہ اُس وقت تک ہمارے پاس نہ تو کورونا وباءکا علاج بصورت ویکسین دستیاب ہوگا اور نہ ہی ایسی مو¿ثر ادویات ہوں گی جو مذکورہ وائرس کی علامات اور انسانی صحت پر اس کے منفی اثرات کی شدت کو کم کرنے کے ساتھ طبیعت کی فوری بحالی کو یقینی بناسکتی ہوںتو کیا اِن حالات میں تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت دینا ٹھیک ہے اور طلبا ‘اساتذہ اور انتظامیہ میں شامل افراد کے تحفظ کے لئے کن قواعد یا احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) کو اختیار کیا جائے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ پندرہ ستمبر تک سکولوں کی بندش کو چھ ماہ گزر جائیں گے۔ اگر ویکسین دستیاب نہیں ہوپاتی تو ہم مزید کتنا عرصہ سکولوں کو اسی طرح بند رکھ سکتے ہیں؟پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی کا انفراسٹرکچر کوئی اتنا اچھا نہیں۔ ہمارے ہاں سکول جانے والے بچوں کی بڑی تعداد میں اکثر بچے کم اور متوسط آمدن والے ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ جو انٹرنیٹ سروس حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لئے اگر سکول مزید چند ماہ بھی بند رہتے ہیں تو بچوں کی اکثریت پڑھائی سے محروم رہے گی۔ ہم یہ دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ بچوں اور اساتذہ کی صحت اور تحفظ کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے اس لئے ہمیں ویکسین کی دستیابی تک کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لینا چاہئے۔ اگرچہ ویکسین کے حوالے سے کچھ حوصلہ افزا ءخبریں سننے کو مل تو رہی ہیں لیکن ہم یہ اندازے نہیں لگاسکتے ہیں کہ ایک مو¿ثر ویکسین وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں دستیاب ہوگی اور آیا وہ قابلِ استطاعت ہوگی بھی یا نہیں؟
تو کیا اب غیر معینہ مدت تک تعلیمی سرگرمیوں کو بند رکھا جائے؟ بہت سے ممالک کا یہ مو¿قف سامنے آ رہا ہے کہ ہمیں ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بندش کے خاتمے کی طرف قدم اٹھانا ہوگا اس لحاظ سے منظرنامہ کچھ یوں سامنے آتا ہے کہ اگر وبائی منتقلی کی شرح قابو میں رہتی ہے تو ضروری ایس او پیز کے ساتھ سکول کھول دیئے جائیں‘یہ خیال خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لئے اہمیت رکھتا ہے جہاں زیادہ تر بچوں کی پڑھائی کمرہ جماعت اور اساتذہ اور دیگر طلباءکی موجودگی میں ہی ممکن ہے۔ اگر اس حوالے سے رسک کی بات کریں تو اس کی سطح بھی مختلف حالات میں مختلف ہوگی۔ مثال کے طور پر سرکاری اور کم فیس والے نجی سکول اضافی احتیاطی سامان (مثلاً ماسک‘ سینیٹائزر‘ ہاتھ دھلوانے کی سہولت) فراہم کرنے کی محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہت سے سکولوں میں گنجائش سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں عام طور پر ایس او پیز پر عمل کروانا آسان کام نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں جہاں بالغ افراد جسمانی دوری برقرار نہیں رکھ پا رہے تو ایسی صورت میں چھوٹے بچوں کے لئے تو اس پر عمل تقریباً ناممکن ہوگا۔
لہٰذا سکول کھولنے میں نئے طریقوں کو استعمال کرسکتے ہیں اور ایسی پالیسیاں اپنا سکتے ہیں جن کے تحت ایک دن چھوڑ کر (وقفے سے) ایک دن بعد کلاسز لی جائیں (تاکہ کسی بھی دن سکول میں بچوں کی تعداد زیادہ نہ ہو)۔ جہاں ممکن ہو وہاں ڈیسک کے درمیان فاصلہ رکھا جائے۔ اگر سکولوں میں بڑے میدان ہیں اور موسم اجازت دیتا ہے تو کلاسوں کا انعقاد وہاں کیا جائے۔ ایسی ہر طرح کی سرگرمی سے باز رہا جائے جس میں مجمع اکھٹا ہو‘ جیسے صبح کی اسمبلی طلبہ کی ٹولیوں کو آپس میں ملنے جلنے سے روکنے کے لئے تمام طلبہ کو ایک ساتھ لنچ بریک نہ دیا جائے ۔ اس سب کے لئے سکولوں کو بہت زیادہ خودمختاری درکار ہے ‘ کئی سکولوں میں کھیل کے بڑے میدان بھی ہیں‘ وہ ان میدانوں کو کس طرح مو¿ثر انداز میں استعمال میں لاسکتے ہیں؟ اِن سبھی فیصلوں کا اختیار مقامی اسسٹنٹ ایجوکیشن افسران‘ ہیڈ ٹیچرز اور اساتذہ کے پاس ہونا چاہئے نہ کہ افسرانِ بالا کے پاس۔ چنانچہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام تر متعلقہ معلومات اور آپشن مقامی حکام کو دستیاب ہو لیکن پھر مو¿خر الذکر کے پاس انہیں اپنے حالات کے مطابق ڈھالنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران جتنا زیادہ طلبہ کا تعلیمی نقصان ہوا ہے اس کا اثر اس سال کی پڑھائی پر بھی ہوگا۔ اب جب سکول خود فیصلے کرنا شروع کریں گے تو وہ غلطیاں بھی کریں گے مگر یہ عمل ناگزیر بھی ہے۔ سکولوں کی بندش ختم ہونے کے دن بظاہر قریب آ رہے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی موقع پر ہمیں ایک بار پھر پڑھائی کے عمل کو دوبارہ شروع کرنا ہی پڑے گا اضافی خطرے سے نمٹنے کےلئے پاکستان کو کورونا ایس او پیز کے نفاذ کے لئے اپنی صلاحیت بڑھانا ہوگی اور پالیسی سازی کے عمل کو مقامی سطح پر منتقل کرنا ہوگا۔ ہم چاہے جو بھی فیصلے کریں مگر سال 2020-21ءایک بہت ہی کٹھن تعلیمی سال ثابت ہونے والا ہے ۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فیصل باری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)