ہانگ کانگ کے لئے نیا قانون متعارف کروانے‘ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ‘ اَمریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ اور اِیران کی ساتھ تعمیروترقی و دوطرفہ تجارت پر مبنی شراکت داری جیسے حالیہ واقعات نے چین پر دنیا کی نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔ درحقیقت چین ایک ایسی باضابطہ خارجہ پالیسی پر بین الاقوامی توجہ حاصل کر رہا ہے جس کی قیادت چین کے ہاتھ ہو اُور یہ چین کے صدر زی جن پنگ کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ دنیا کو ایک الگ زوایئے سے دیکھ رہے ہیں۔ بنیادی بات چین کی خارجہ پالیسی میں آنے والی تبدیلی ہے۔ مشرقی اور جنوبی چین کے سمندروں سے لیکر ہواوے جیسی ٹیک کمپنیوں سے تنازعات کے ساتھ‘ کورونا وبا کے باعث چین کو جس قدر تنہا کرنے کی کوشش کی گئی یہ اُسی قدر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اِسی طرح بیجنگ اپنی خارجہ پالیسی کے متعدد پہلوو¿ں کو مضبوطی سے آگے بڑھا رہا ہے تاہم ایک نوزائیدہ چین نے مغربی تسلط کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں گہری تشویش اپنے معاشی فلسفے اور انوکھے سیاسی ماڈل سے پائی ہے کہ مغربی باشندوں کا خیال ہے کہ چین اپنی سرحدوں سے باہر بھی پھیل رہا ہے۔طویل عرصے سے‘ عام طور پر مغرب اور امریکہ نے بالخصوص ’لبرل ڈیموکریسی‘ آزاد منڈی اور شفافیت کے نظریات کا مقابلہ کیا ہے کیونکہ معاشی ترقی اور طویل مدتی استحکام کے لئے ایسا ضروری ہے۔ یہ سب سرد جنگ کے بعد زیادہ تیزی سے ہوا جس میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آمرانہ حکومتیں فیصلہ سازی کی مبہم فطرت اور اختیارات کے ارتکاز کے تحت جمہوری اُمنگوں اور نظریات کو حاصل کرنے میں فطری طور پر ناکام ہوتی ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی زیرقیادت دہائیوں پرانی ادارہ جاتی اصلاحات پر‘ بیجنگ نے نہ صرف کروڑوں افراد کو غربت سے نکالنے کا قابل ذکر کارنامہ سرانجام دیا بلکہ اس نے عوام کے معیار زندگی کو بھی نمایاں طور پر اونچا کیا اور مغرب نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا۔ ورلڈ بینک کے سابق صدر کم نے اس حقیقت کو 2018ءکی رپورٹ میں ذکر کیا جب انہوں نے کہا ”چین نے اپنی قومی فی کس آمدنی میں پچیس گنا اضافہ کیا اور کروڑوں افراد کو غربت سے نکالا۔ اِن اقتصادی اصلاحات کے نتیجے میں چینی عوام نے خود کو غربت سے الگ کر لیا۔
دنیا میں غربت کم کرنے کا ستر فیصد سے زیادہ ہدف چین نے حاصل کیا ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جس کا معاشی نمونہ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ مغربی فلسفے کے سامنے یہ نظریاتی چیلنج ہے جو بین الاقوامی نظام کے لئے معاشی ترقی کا متبادل تصور ہے۔چین کی موجودہ جارحانہ خارجہ پالیسی اِس کی کیمونسٹ پارٹی کی کارکردگی کا نچوڑ ہے جس نے مغربی تخیل کو حیرت انگیز طریقے سے جکڑ رکھا ہے اور دنیا کیمونسٹ پارٹی کے فیصلوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ چیئرمین ماو¿ کے بعد کیمونسٹ پارٹی کی سربراہی ڈینگ ژاو¿پنگ کو سپرد ہوئی جنہوں نے چین کی سرحدوں کو کھول دیا اور چین کی ترقی میں تازہ ہوا کے جھونکے متعارف کرائے‘ جس سے چین ایک نئے سفر پر گامزن ہوا اور اس نے ملک کے کمزور طبقات کو طاقتور بنایا۔ ایک وقت تھا جب چین خودساختہ عالمی تنہائی کا شکار تھا‘ اور اِس نے دنیا تک پہنچنے‘ پڑوسیوں کے ساتھ سمندری تنازعات کو ایک طرف رکھنے اور معاشی ترقی کو ترجیح رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا عزم کیا اور ترقی کی بنیاد رکھی۔ بیجنگ کے بین الاقوامی معاشی اور سیاسی اداروں میں شمولیت کی ابتدا کیمونسٹ پارٹی کی عملی سوچ سے ممکن ہوئی۔ چین کا مستقبل کیا ہے اِس بارے میں مغربی خدشات نہ صرف موجود ہیں بلکہ اِن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بالخصوص جب اکتوبر 2017ءمیں کیمونسٹ پارٹی کا انیسواں اجتماع ہوا تو اُس میں ملک کے لئے ایک نئے لائحہ عمل کی منظوری کی دی گئی جو صدر ژی جن پنگ کی سوچ اور بصیرت کے عین مطابق تھا اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ چین کے موجودہ صدر کی حیثیت کسی بھی طرح جدید چین کے بانیان چیئرمین ماو¿ اور ڈینگ ژاو¿پنگ سے کم نہیں ہے۔ چین ایک عالمی نظریہ رکھتا ہے اور قیادت بھی۔ اِس کے عالمی نظریئے میں کوئی بڑی یا بنیادی تبدیلی آنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔
ایسے وقت میں جب صدر ٹرمپ عالمگیریت کے سخت تنقید نگار کے طور پر ابھرے‘ چین نے خلا کو پر کرنے کے لئے تیزی سے کام کیا اور صدر جن پنگ نے خاص طور پر دو مواقع پر معاشی عالمگیریت کا مضبوط دفاع کیا۔ سب سے پہلے‘ اقتصادی رہنماو¿ں کے اجلاس میں جو کہ 2016ءمیں منعقد ہوا اور مذکورہ اجلاس میں صدر ژی نے ”معاشی عالمگیریت کے نظریئے کو زیادہ پائیدار اور قابل عمل بنا کر پیش کیا۔ دوسرا سال 2017ءمیں جب ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو اُنہوں نے معاشی عالمگیریت کے خلاف مہم کی سختی سے مذمت کی اور اُس موقع پر اپنے خطاب میں‘ چین کے صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کی سوچ اور حکمت عملی کے مضر پہلوو¿ں کو کھول کھول کر بیان کیا جو معاشی پریشانیوں میں بڑھاوے کا باعث قرار دی گئیں۔ عالمگیریت نے کس طرح چین کی نمو اور معاشی خوشحالی کو تقویت بخشی‘ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے‘ صدر ژی نے جدت سے معاشی نمو کے نمونہ تخلیق کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا‘ جو بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر تعاون اور عالمی نظام کی مساوی حکمرانی کا ایک مربوط طریقہ کار ہے۔
چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) پیش کیا جو اِس کی معاشی عالمگیریت کو مستحکم کرنے کے عزم کا عملی اظہار و مظہر ہے اور ثابت ہوا کہ چین کی قیادت صرف زبانی دعوے نہیں کرتی۔ تاہم‘ مغربی علمی اور سیاسی رائے مختلف ہے اور وہ چین کے طویل مدتی عزائم اور سال 2049ءتک اِس کے عزائم کو مختلف نظر سے دیکھ رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 2049ءمیں چین ’عوامی جمہوریہ‘ بننے کے لئے اپنے 100 سال پورے کر لے گا۔ مغرب چین کو ایک عالمی سیاسی و معاشی اور دفاعی طاقت کے طور پر دیکھ رہا ہے‘ جس کے اثرورسوخ میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی دانشوروں کی نظر میں صدر ژی کا تصور ’ایک دنیا اور ایک خواب‘ ہے جس میں چین کو مرکزی و کلیدی حیثیت حاصل ہو اور عالمی سیاست میں اِس کا کردار بھی پہلے سے زیادہ فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔ چین مختلف محاذوں پر اِس قدر تیزی اور مستقل مزاجی سے کام کر رہا ہے کہ دنیا کےلئے اِس کی ترقی و پھیلاو¿ کا راستہ روکنا ممکن نہیں اور یہی وہ خاص بات ہے جو اکیسویں صدی کو چین کے نام کرتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: امانت علی چوہدری۔ ترجمہ:اَبواَلحسن اِمام)