بھارت اور چین ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لئے متنازعہ سرحدی علاقے میں تعمیرات کر رہے ہیں اور دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علاقے میں اپنی موجودگی مستحکم کریں۔ حال ہی میں بھارت چین جھڑپ متنازعہ شمال مغربی علاقے کے ایک سرحدی فضائی اڈے تک بنائی جانے والی سڑک کی تعمیرکے سلسلے میں ہوئی ہے۔ اس فوجی جھڑپ میں کم سے کم بارہ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ لداخ کے علاقے میں 225کلومیٹر طویل ’داربوک شوک دولت بیگ اولڈی روڈ لییہ‘ کو ’دولت بیگ اولڈی‘ میں سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر بنائے جانے والے جنگی فضائی اڈے سے ملاتی ہے۔ اس سڑک کی منصوبہ بندی اور تعمیر بیس سال سے جاری تھی۔ مذکورہ سڑک کی تعمیر سے بھارت اپنے دفاعی ساز و سامان کی نقل و حرکت اور فوجوں کی تعیناتی اس انتہائی اہم علاقے میں باآسانی کر سکتا ہے جو پاکستان اور چین کی سرحدوں سے صرف آٹھ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس علاقے سے پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کے تحت بننے والی سڑک بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ لداخ کی گلوان وادی میں چین اور بھارتی فوجوں کے درمیان تصادم کے بعد اِس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ معاملہ کہیں دو جوہری طاقت رکھنے والے ہمسایہ ملکوں کے درمیان جنگ میں نہ بدل جائے۔چین اور بھارت کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر کبھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور دونوں ملکوں کی فوجیں کئی مرتبہ انتہائی دشوار گزار سرحدی پہاڑی علاقوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکی ہیں۔
بھارت اور چین نے مذکورہ دشوار گزار سرحدی علاقے میں سڑکیں‘ ریل کی پٹڑیاں اور فوجی ہوائی اڈے بنانے پر افرادی قوت اور مالی وسائل صرف کئے ہیں۔ اِس متنازعہ سرحد کو ”لائن آف ایکچول کنٹرول“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک اپنی افواج کو جدید بنانے کے لئے بھی بے شمار اخراجات بھی کر رہے ہیں۔ بھارت کی تازہ تعمیرات جن میں ”داربوک شوک دولت بیگ اولڈی“ شامل ہے بظاہر چین کی ناراضی کی وجہ بنی۔ دونوں ملک اس علاقے میں ایک دوسرے کی طرف سے تعمیرات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چین اپنی سرحد کے ساتھ برس ہا برس سے سڑک اور دیگر سہولیات تعمیر کر رہا ہے۔ سال 2017ءکے موسم گرما میں بھی دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان لداخ سے مشرق میں ”ڈوکلام“ کے علاقے میں تصادم ہوا تھا۔ یہ جھڑپ بھی ایک سڑک کی تعمیر پر ہوئی تھی جو چین اس جگہ بنا رہا تھا جس جگہ چین‘ بھارت اور بھوٹان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ ”لائن آف ایکچوئل کنٹرول“ سے متصل بھارت نے دفاعی اعتبار سے اہمیت کی حامل 73سڑکوں اور 125پلوں کی تعمیر کی منظوری دی لیکن ان پر کام کی رفتار سست رہی۔73میں سے صرف 35سڑکیں ہی اب تک مکمل ہو پائی ہیں جن میں اترکھنڈ کی ریاست میں گاٹھی برگاہ‘ لیپولیک اور اورنچل پردیش میں ڈمپنگ اور ینگ ٹیز بہت اہم ہیں۔ دیگر گیارہ سڑکیں اس سال کے آخر تک مکمل کر لی جائیں گی۔لیکن بھارت کو مذکورہ علاقے میں چین پر فوجی برتری حاصل کرنے کے لئے ابھی بہت سا کام کرنا ہے اور چین کو واضح برتری حاصل ہے۔ چین تعمیرات کے شعبے میں اپنے جانی مانی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ان علاقوں میں ہوائی اڈوں‘ فوجی چھاو¿نیوں‘ سڑکوں اور ریل کی پٹڑیوں کا جال پہلے ہی بچھا چکا ہے۔
بیجنگ نے ہمالیہ کے علاقے میں 1950ءکی دہائی میں سڑک کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ اس کے پاس اب تبت اور یونان صوبے میں سڑکوں اور ٹرینوں کا مربوط جال موجود ہے۔ سال 2016ءمیں چین نے بھوٹان اور نیپال کے ساتھ بھارت کی سرحد کے قریب بھی اپنی رسائی کے ذرائع اور راستے بہتر کر لئے تھے۔ شنکیانگ اور تبت کے درمیان سڑک پر کام ہو رہا ہے جو کہ نیشنل ہائی وے ”جی 219“ کو آپس میں جوڑے گی۔ مذکورہ نیشنل ہائی وے چین اور بھارت کی سرحد کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے تاہم بھارت کے صوبے اورناچل پردیش کے قریب ایک پختہ سڑک ”میڈاگ“ اور ”زایو“ نامی علاقوں کے درمیان زیرِ تعمیر ہے اور اِس کے بارے میں چین کا کہنا ہے کہ یہ تعمیراتی کام رواں برس کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اسی علاقے میں ایک نئی ریلوے لائن بھی زیر تعمیر ہے جو تبت کے سب سے بڑے شہر ”شیگاتیز“ سے ”چنگڈو“ کو براستہ ”نیگچی“ سے ملائے گی۔ ایک اور ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے جو ”سیگاتیز“ اور ”یڈونگ“ کو ملائے گا جو ”سکم“ کے قریب ایک تجارتی اہمیت کا راستہ ہے۔ ”سکم“ بھارت کی ایک اور ہمالیائی ریاست ہے جہاں اس سال مئی میں دونوں ملکوں کی فوجیوں میں جھڑپ ہوئی تھی۔ چین کے سرحدی علاقوں میں ایک درجن سے زیادہ ہوائی اڈے ہیں جن میں سے تبت میں واقع پانچ اڈوں کو شہری اور فوجی ہوا بازی کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چین تین نئے ہوائی اڈے بھی تعمیر کر رہا ہے جب کہ ”سنگتیز‘ نگاری گنسا اور لاسا“ میں تمام موسمی حالات میں آپریشنل رہنے والے ہوائی اڈوں کی تعمیر پر کام جاری ہے۔
ان علاقوں میں زیر زمین پناہ گاہیں اور نئے رن ویز تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ ”نگاری گنسا“ کے ہوائی اڈے پر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور جدید ترین لڑاکا طیاروں کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے‘بہرحال چین بھارت کی جانب سے تعمیرات کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ”جنگ کی صورت میں جنگی ساز و سامان اور فوج کی نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا۔“بھارت طویل عرصے تک اس علاقے میں اس لئے تعمیرات کرنے سے گریزاں رہا کیونکہ جنگ کی صورت میں یہ ذرائع چین کے استعمال میں نہ چلے جائیں اور وہ اپنی فوجیں آسانی سے بھارت کے اندر تک لے آئے لیکن اَب اِس دلیل کو رد کیا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک ایک جنگ ہوئی ہے جس میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ (بشکریہ: گارڈین۔ تحریر: ایلیس میکائیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)۔