کشمیرکہانی

 کشمیر کی بدقسمتی کا حالیہ دور دائیں بازو کی سیاسی جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کی سال 2014ءمیں انتخابی کامیابی سے ہوا جس کے بعد سے انتہا پسند جماعت برسرِ اقتدار آئی تب سے ہی کشمیر میں یہ وسوسے غالب ہونے لگے تھے کہ بچی کھچی نام نہاد اندرونی خود مختاری کا جنازہ نکل جائے گا کیونکہ بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ (آر ایس ایس) کا 1947ءسے ہی یہ نعرہ تھا کہ ایک ملک میں 2آئین اور 2پرچم نہیں رہ سکتے ہیں‘ اگست 2019ءکے آتے آتے افواہ گرم تھی کہ دہلی میں مودی حکومت جموں وکشمیر کے پشتینی باشندگی قوانین کو تحفظ فراہم کرنے والے آئین ہند کی دفعہ 35-Aکو ختم کرنے والی ہے۔ آناً فاناً ہندو امر ناتھ یاترا اس بہانے بیچ میں ہی ختم کردی گئی کہ اس پر حملہ ہونے والا ہے۔ سیاحوں اور کشمیر میں کام کررہے باہری مزدوروں کے لئے ہدایات جاری کردی گئیں کہ وہ فوراً کشمیر چھوڑ دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کے سیاحتی مقامات پر ویرانی چھاگئی۔ ہوٹل خالی ہوگئے۔ جھیل ڈل کے خاموش پانیوں پر ٹھہرے ہاو¿س بوٹ اداسیوں کی علامت بن گئے۔ راشن ذخیرہ کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ مختصراً ایک ایسا ماحول بنایا گیا جہاں لوگوں کو یہ لگنے لگا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے لیکن تین اگست کی شام گورنر ستیہ پال ملک نے عوامی اضطراب کو یہ کہہ کر قرار بخشنے کی کوشش کی کہ کچھ ہونے والا نہیں ہے لیکن جیسا کہتے ہیں کہ کشمیر میں افواہیں ایسے ہی نہیں اڑتی ہیں بلکہ وہ جان بوجھ کر اڑائی جاتی ہیں اور یہ افواہیں بیشتر اوقات سچ ہوتی ہیں۔ ویسا ہی اس دفعہ بھی ہوا۔ تذبذب کے عالم میں جب چار اگست کی رات کو لوگ اپنی خواب گاہوں کا رخ کرنے لگے تو بے چین کردینے والی خبریں سامنے آنے لگیں۔ نیم شب سے پہلے پہلے موبائل فون کی دھڑکنیں مدہم مدہم چل رہی تھیں۔ گوکہ انٹرنیٹ بند ہوچکا تھا لیکن کمزور نیٹ ورک کے سہارے ابھی ایس ایم ایس اور صوتی کال چل رہے تھے اور خبریں آئیں کہ ہند نواز رہنماو¿ں کی بھی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

 مواصلاتی نظام کی جان کنی طویل ثابت نہ ہوسکی اور کچھ ہی دیر میں نصف شب ہوتے ہوتے مواصلاتی نظام کی دھڑکیں رک گئیں اور رابطوں کے تمام ذرائع منقطع کر دیئے گئے۔ پانچ اگست کی صبح بھیانک منظر کشی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ پورا کشمیر محصور ہوچکا تھا۔ راتوں رات کرفیو لگ گیا۔ پرندوں کو پر ہلانے کی اجازت نہ تھی۔ جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے۔رات کی ظلمتوں سے ایک نئی صبح کا سورج طلوع ضرور ہوا لیکن یہ اپنے ساتھ کوئی نئی نوید لے کر نہیں آرہا تھا بلکہ اس کے بطن میں بدخبروں کا ایک طوفان امڈ رہا تھا۔ جوں جوں سورج کی تمازت بڑھنے لگی‘ کشمیر سے سینکڑوں کلو میٹر دور دہلی کے پارلیمنٹ ہاو¿س میں کشمیریوں کے لئے ایک نئے سیاہ باب کو رقم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ سورج جب عین شباب پر بالکل سروں کے اوپر تھا تو یہ اپنے ساتھ ایک قیامت بھی لے آیا اور یہ قیامت پارلیمنٹ کی وہ ہنگامی قانون سازی تھی جو ساری پارلیمانی روایات کو پھلانگتے ہوئے انجام دی جارہی تھی۔ 1947ءسے بھارت کے آئین میں شامل دفعہ 370کا جنازہ نکالا گیا اور اس کے ذریعے دفعہ 35-A بھی چلی گئی کیونکہ ایسے کئی قوانین دفعہ 370کے راستے ہی کشمیر میں نافذ ہوئے تھے۔ سرجیکل اسٹرائیک کے بعد پانچ اگست کے اقدام کو آئینی اسٹرائیک قرار دینے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تاریخی غلطیوں کو سدھارا گیا اور کشمیر کو بھارت کے مین اسٹریم میں ضم کردیا گیا۔

 لیکن ایک سال ہونے کے بعد کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ بندہ¿ مزدور کے اوقات بدلے نہ عام لوگوں کے حالات بلکہ الٹا یاس اور ناامیدی کے گھنگور بادل اس قدر گھنے ہوچکے ہیں کہ اب پورا کشمیر ہی ڈپریشن کا شکار ہوچکا ہے۔ سینہ ٹھونک کر جس عسکریت کو ختم کرنے کی باتیں کی گئی تھیں‘ وہ عسکریت تاحال زندہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کشمیری نوجوان بیابانوں کی راہ لیتے ہیں۔ آزادی کا جذبہ بھلے ہی لاٹھی کے زور پر دب چکا ہو لیکن ختم نہ ہوسکا۔ اس ایک سال میں اگر کچھ ختم ہوا تو وہ ہند نواز سیاست ہے کیونکہ ان کو اس قدر بے نیل مرام کردیا گیا کہ وہ اب اپنے لوگوں کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رکھے گئے ہیں۔ پانچ اگست کا زخم اتنا گہرا ہے کہ اس کا ایک ساتھ علاج یا احاطہ ممکن نہیں ہے اور اگر اس زخم کی تہیں کھول دی جائیں تو شاید مشاہدین اور طبیبوں کو اندازہ ہو کہ یہ زخم کس قدر ناسور بن چکا ہے۔ پانچ اگست 2019ءکے بعد سے کشمیر عملی طور پولیس سٹیٹ بن چکی ہے۔ زباں بندی کا جو دستور اس دن قائم ہوا تھا‘ وہ پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ریاض ملک۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)