پاک افغان بارڈر

 جن مسائل کو حل کرنے میں ماضی کی حکومتوں بشمول موجودہ حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ان میں پاک افغان بارڈر سے متعلق کافی اہم معاملات بھی شامل ہیں جنہیں حل کرنے کی بجائے اس ملک کے حکمرانوں نے ہمیشہ انہیں قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اگر پاکستان سے کسی نے افغانستان جانا ہو یا افغانستان سے کسی نے پاکستان آنا ہو تو وہ منہ اٹھائے ہوئے چلا آتا ہے اسے اس بات کا خدشہ ہی نہیں ہوتا کہ کوئی اس سے یہ پوچھے گا کہ بھائی تم کون ہو اور تم کیسے پاکستان میں داخل ہوئے ہو اور یہاں کتنے دن قیام کرو گے کسی بھی ملک میں آپ اتنی آسانی سے گھس نہیں سکتے کہ جتنی آسانی سے کہ آپ وطن عزیز میں افغانستان سے آ جا سکتے ہیں اس کھلی چھٹی کا انیس سو سینتالیس سے اگر کوئی ملک استفادہ کر رہا ہے تو وہ بھارت ہے وہ پاک افغان بارڈر کے ذریعے اس ملک میں اپنے ایجنٹ بھجواتا ہے جو تخریبی کاروائیوں کے ذریعے اس کا امن تاراج کرتے ہیں ابھی چند روز ہی ہوئے کہ بلوچستان سے منسلک پاک افغان بارڈر پر ایک کشیدگی کا ماحول رہا ۔ مان لیا کہ پاک افغان بارڈر کے دونوں جانب ایک ہی قبیلے کے لوگ آباد ہیں ایک بھائی اگر ادھر ہے تو دوسرا ادھر وہ آپس میں ملنے کیلئے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے ہیں اور پھر بعض تجارتی معاملات میں افغانستان پاکستان کا محتاج بھی ہے بعض اشیاءخوردنی کے لیے وہ پاکستان پر انحصار کرتا ہے پر ان میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کو بآسانی حل نہ کیا جا سکے ہمکچھ عرصے سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں اب کوئی بھی افغانستان کا باشندہ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر داخل نہیں ہوسکے گا اور وزارت داخلہ اس بات کی تسلی کر ے گی کہ افغانستان کا جو بھی باشندہ پاکستان میں داخل ہوا ہے۔

 وہ ویزے کی معیاد ختم ہونے سے پہلے اپنے ملک واپس چلا گیا اس ملک کے عوام وزیر داخلہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے فلور پر قوم کو اس بارے میں مطلع کریں وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ گزشتہ دو برسوں میں کتنے افغان باشندوں کو پاکستان آنے کا ویزہ دیا گیا اور وہ کس قسم اور کس نوعیت کے ویزے تھے 2 سال پہلے قومی اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ بعض افغان باشندوں نے پاکستانی سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے پاکستان کے شناختی کارڈ بھی حاصل کئے اور ان کے بل بوتے پر وہ نادرا جیسے حساس ادارے کی ملازمت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے پھر اس کے بعد کسی وزیر باتدبیر یا حکومت نے پارلیمنٹ کے فلور پر قوم کو یہ بتانے کی تکلیف گوارہ نہ کی کہ اس سکینڈل میں ملوث پاکستانی سرکاری اہلکاروں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا اور کیا ان افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا کہ جنہوں نے بوگس طریقے سے پاکستان کے شناختی کارڈ حاصل کیے تھے ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا اس خبر پر فالو اپ ایکشن کے بارے میں قوم کو باخبر نہیں رکھتا کہ جو اس نے چھاپی یا نشر کی ہوتی ہے اس لیے عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا اور وہ اندھیرے میں رہتا ہے کہ جس خبر کا انکشاف میڈیا میں ہوا ہے اس میں ملوث فرد یا افراد کا آخر کیا بنا جو جرم سرزد ہوا اس کی قرار واقعی سزا مجرم کو ملی یا پھر کسی سیاسی سفارش یا کسی اور وجہ سے وہ بری کر دیا گیا۔