تب اور اب 

بعض حقائق ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کاذکر بار بار اس لئے بھی ضروری ہے  کہ ملک کی نئی نسل کو یہ باور کرایا جاسکے  کہ وہ اپنے اپنے پیشوں میں خوب سے خوب تر مقام حاصل کرنے کی جستجو میں کسی بھی غفلت کا شکار نہ ہوں تاکہ وہ بھی ان میں وہ درجہ حاصل کر سکیں جو ان پیشوں کے نابغوں نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ آج اس کالم کے توسط سے  زندگی کے مختلف شعبوں میں جن پاکستانیوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے‘ ہم کیوں نہ  ان کا تذکرہ کریں کہ وہ اس ملک کی جواں نسل کے واسطے رول ماڈل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے ان افراد کا ذکر کر لیتے ہیں کہ جن کا تعلق کھیلوں کی دنیا سے تھا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جن کا آج تک ان کے شعبے میں  کوئی ثانی نہیں پیدا ہو سکا۔ پشاور چھاؤنی کے قریب  ایک چھوٹا سا قصبہ واقع ہے جس  کا نام ہے‘ نواں کلی۔یہ نام سنتے ہی ہر ذہن میں سکواش کے عظیم کھلاڑی ہاشم خان کا نام آ جاتا ہے کہ  دنیا نے آ ج تک ان کے ہم پلہ کوئی دوسرا سکواش کا کھلاڑی نہیں دیکھا۔ہاشم کی دیکھا دیکھی انہی کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے کئی کھلاڑیوں   بشمول ان کے سگے بھائیوں نے  دنیائے سکواش پر کئی برس راج کیا‘  جن کے نام یہ ہیں۔اعظم خان‘روشن خان‘ہدایت جہان‘محب اللہ‘ جہانگیر خان‘ جان شیر خان‘قمر زمان۔ ان کھلاڑیوں نے لگ بھگ نصف صدی تک سکواش کی کورٹس پر حکومت کی‘ہاشم خان تو  چالیس سال کی عمر تک متحرک رہے جب کہ ان کے جانے کے بعد دنیا کا کوئی بھی سکواش کا کھلاڑی اتنے لمبے عرصے تک سکواش جیسے ٹف گیم میں متحرک نہ رہ  سکا۔ پاکستان کی ہاکی ٹیم میں جن کھلاڑیوں کو نئے کھلاڑیوں کے لئے رول ماڈل قرار دیا جا سکتا ہے‘ان کے نام حسب ذیل ہیں۔حمیدی انوار احمد خان‘ حبیب علی‘ کڈی عاطف‘منیر ڈار‘تنویر ڈار‘ حسن سردار‘ سمیع اللہ‘ نصیر بندہ اور  ذکاء اللہ وغیرہ۔ کرکٹ کے میدان میں جو مقام پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان حفیظ کاردار کا تھا‘ اس مقام تک ان کے جانے کے بعد پھر کوئی اور کپتان نہ پہنچ سکا‘ فضل محمود جیسا خوبرو میڈیم فاسٹ بالر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ان کے جانے کے بعد پھر کوئی نہ آ یا‘ جس بات کا ذکر ہم نے چھیڑا ہے اسے پاکستان تک ہی محدود نہیں رکھتے‘ اس کا دائرہ عالمی سطح تک بڑھا دیتے ہیں‘فٹ بال میں برازیل کے پیلے اور ارجنٹینا کے میراڈونا  جیسے بہترین کھلاڑی نہیں آئے اور اگر ہاکی کا تذکرہ کریں تو بھارت کے دھان چند جیسا سینٹرفارورڈ دنیائے ہاکی نے پھر نہیں دیکھا‘پر نابغوں کا ذکر صرف کھیلوں کی دنیا تک محدود کیوں کیا جائے۔ اس کا دائرہ ذرا اور وسیع کیوں نہ کیا جائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیائے سیاست میں ابراہام لنکن‘چرچل‘ مارشل ٹیٹو‘جنرل ڈیگال‘ ماؤ زے تنگ‘چو این لائی‘ محمد علی جناح‘ پنڈت نہرو‘ نیلس‘ مینڈیلا‘ فیڈل کاسترو اور امام خمینی جیسے نابغے نہیں آئے کہ جنہوں نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ فلم اداکاری کی دنیا میں دلیپ کمار‘مارلن برانڈو‘مدھو بالا‘گلوکاری میں ملکہ ترنم نور جہاں‘مہدی حسن‘رفیع‘ لتا اور موسیقی کی دنیا میں نوشاد علی اور استاد بڑے غلام علی خان کے ہم پلہ افراد فنون لطیفہ کی دنیا نے پھر نہیں دیکھے۔