یہ خبر خوش آئند ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان آئندہ مارچ سے ریل کا رابطہ ہونے جا رہا ہے جو ترکمانستان اور ایران سے بھی جڑا ہو گا۔یہ خبراطمینان بخش اور اس حد تک تو خوش آئند ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے ایک قرارداد منظور کر لی ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے یا نہیں؟امید کی جانی چاہئے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اب تو ناظرین پی ٹی وی کا وہ دور یاد کرتے ہیں کہ جب اس نے ایک لمبے عرصے تک تن تنہا ہر قسم کے ناظرین کے ذوق سلیم کا کما حقہ‘ خیال رکھا اور ناظرین کے ہر طبقے کی خواہشات کو مدنظر رکھ کر اپنے پروگرامز کو مرتب کیا‘چنانچہ پی ٹی وی نے اردو اور ریجنل زبانوں میں مشاعرے بھی ٹیلی کاسٹ کئے‘کلاسیکی موسیقی کو بھی کافی وقت دیا‘ معیاری ڈرامے بھی تخلیق کئے اور کئی اہم اور عوامی نوعیت کے مسائل پر دستاویزی فلمیں بھی ٹیلی کاسٹ کیں‘ وہ زمانہ بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا ابھی رنگین ٹیلی ویژن کا دور ملک میں شروع نہیں ہوا تھا‘پر اس کمی کے باوجود پی ٹی وی نے اپنے لئے ایک بڑی clientale یعنی ناظرین گاہکوں کی ایک دنیا پیدا کر لی تھی‘ ملک کے ہر حصے میں زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں درجنوں ایسے عوامی مسائل ہیں جو حل طلب ہیں پر متعلقہ حکام کی غفلت کا شکار ہیں ان کو اجاگر کرنے میں ٹیلی ویژن چینلز کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صدر مملکت نے بجا طور پر کچے کے ڈاکوؤں کی سرکوبی کا حکم دیا ہے‘کسی صورت میں بھی زمینوں پر قبضے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘امن عامہ کے قیام کا معاملہ صوبے سے تعلق رکھتاہے اور یہ سندھ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں ڈاکو راج کا خاتمہ کرے جب تک صوبائی حکومتیں پولیس کے نچلے کیڈرز میں پولیس کی بھرتی میں سیاسی مداخلت کو ختم نہیں کریں گی پولیسنگ کا معیار اچھا نہیں ہو سکے گا ۔کنیڈا میں آزاد خالصتان کے علمبرداروں نے وسیع پیمانے پر خالصہ ڈے کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کیا کنیڈا کے وزیر اعظم نے شرکت کی‘ اس سے اگر ایک طرف مودی سرکار کی دنیا بھر میں سبکی ہوئی ہے تو دوسری طرف بھارتی اور کنیڈین حکومت کے درمیان سیاسی کشیدگی نے بھی جنم لیا ہے۔بیجنگ میں فلسطینی گروپوں کے درمیان مذاکرات ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کا کس قدر خواہش مند ہے‘ اس کے برعکس امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ جنگ کا اکھاڑا بنا رہے۔جہاں زندگی کے کئی اور شعبوں میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے وہاں سیاسی پارٹیوں کے پارٹی فنڈز میں شفافیت پیدا کرنا بھی ضروری اس لئے ہے کہ کل تک بعض سیاست دان ایسے تھے کہ جو تین چار مرلوں کے مکانات میں رہتے تھے پر آج وہ ایک سے زیادہ بنگلوں میں مقیم ہیں اور ان کے ہاں روزانہ جو اجلاسوں کے نام پر دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے‘ ان پربھی لاکھوں روپے کا خرچہ اٹھتاہے‘ آخر یہ پیسہ ان کے پاس کیسے آیا ہے یا آ رہا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ پارٹی فنڈ کے نام سے انہوں نے جو پارٹی فنڈز کھول رکھے ہیں‘ان میں بعض ایسے لوگ بھی بھاری رقومات جمع کراتے ہیں جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہیں‘ انہی لوگوں کو پھر سیاسی جماعتوں کے قائد اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے کے واسطے پارٹی ٹکٹ دیتے ہیں اور جب وہ ایوان اقتدار کا حصہ بن جاتے ہیں اپنی کسر پوری لیتے ہیں۔