پاکستان کی سیاست میں ان افغان باشندوں کی عملی مداخلت کا چرچا تو اکثر کیا جاتا ہے کہ جو وطن عزیز میں مقیم ہیں پر اس کو روکنے کے لئے کوئی موثر طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا اس کا ایک نہایت ہی آ سان اور قابل عمل طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت ویزے کے بغیر کسی افغانستان کے باشندے کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے اور پھر اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ جو افغانی ویزے پر پاکستان میں داخل ہوا ہے وہ ویزے کی معیاد ختم ہونے پر واپس اپنے ملک جا چکا ہے پاکستان کا دورہ کرنے والے ہر افغانی کو ویزا دینے کیلئے اسی طرز کا ایک سسٹم نافذ کیا جائے کہ جو امریکہ اور برطانیہ نے اپنے ہاں غیر ملکیوں کی انٹری کے لئے وضع کیا ہوا ہے
پاکستان میں ہر افغانی بڑی آ سانی سے داخل ہوتا ہے اور پھر وہ پشاور سے لیکر کراچی تک بغیر کسی روک ٹوک کے گھومتا پھرتا ہے صرف طورخم سے ہی نہیں افغانی نوا پاس مہمند‘ انگور اڈہ جنوبی وزیرستان اور غلام خان شمالی وزیرستان کے راستوں سے بھی بے دھڑک پاکستان میں داخل
ہوتے ہیں اور ان رستوں پر ان کی چیکنگ کا کوئی مو¿ثر بندوبست موجود نہیں ہے یہ جو پشاور سے لیکر کراچی تک آپ کو جگہ جگہ کچی بستیاں دکھائی دیتی ہیں یہ ان ہی افغانیوں کا مسکن ہیں ان میں بسنے والے کچھ افراد ممنوعہ بور کے اسلحہ کا کاروبار بھی کرتے ہیں‘ ان کو سخت سزائیں دے کر نشان عبرت بنانا ضروری ہوگا اور افغانستان میں پاکستان کے سفارتخانے کو ان کے کوائف ارسال کر کے یہ لکھنا ضروری ہو گا کہ اگر یہ افراد پاکستان جانے کے واسطے ویزہ مانگیں تو ان کو آئندہ پاکستان کا ویزہ نہ دیا جائے۔ بھارت میں حال ہی میں ہونیوالے ضمنی انتخابات کے نتائج
سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے اور اس کی وجہ مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسی ہے جس سے بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کی ناک میں دم آنے لگا ہے۔ وزیراعظم صاحب وسطی ایشیائی ریاستوں کیساتھ پاکستان کے جو قریبی تعلقات استوار کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں‘ ہمارے تمام سیاستدانوں کو بھلے ان کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے کیوں نہ ہو نہ صرف وسطی ایشیا کے تمام ممالک سے قریبی روابط رکھنے ہونگے بلکہ ان کو کوئی ایسا بیان یا اقدام نہیں اٹھانا چاہئے جس سے چین‘ روس اور سعودی عرب کیساتھ ہمارے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہو کیونکہ ان ممالک نے برے وقتوں میں ہماری امداد کر کے ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔