آج کے کالم کا آغازہم عالمی مسائل کے ذکر سے کرتے ہیں ‘ یوکرائن اور روس کے درمیان جاری جنگ کا کہ جو‘ اب شدت اختیار کر چکی ہے ‘امریکہ کی خواہش پر نیٹو کے تمام ممالک روس کے خلاف یوکرائن کی مدد کے لئے میدان جنگ میں کود پڑے ہیں روس کی خوش قسمتی ہے کہ سٹالن اور خروشچیف کے بعد اسے پیوٹن کی شکل میں ایک مضبوط اعصاب کا لیڈر ملا ہے کہ جو امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈالا کر بات کرتا ہے ‘یاد رہے کہ خروشیف اور سٹالن کے بعد ایک لمبے عرصے تک ماسکو میں جو سوویت لیڈرشپ بر سر اقتدار تھی وہ بڑے کمزور اعصاب کی مالک ثابت ہوئی تھی اور اسی کے دور میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے‘ جس سے روس کے عوام بڑے دل برداشتہ ہو گئے تھے اورجب روس میں موجودہ صدر ولادیمیر پیوٹن بر سر اقتدار آئے اور انہوں نے روس کی نشاة ثانیہ کے لئے ٹھوس اقدامات لئے تو انہیں روسی عوام کی از حد پذیرائی ملی ‘آج روس کے عوام کی ان کو مکمل حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے اس خطے کے دونوں ملکوں چین اور روس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم ہو چکے ہیں ‘ان کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے اور حکومت کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ جس سے ہمارے ان دونوں ممالک سے تعلقات خراب ہو نے کا اندیشہ ہو۔ سیاسی مبصرین کے مطابق امریکہ میں بھی اب مدبر قسم کے سیاسی رہنماﺅں کا قحط الرجال نظر آ رہا ہے کہاں ابراہام لنکن‘ جارج واشنگٹن‘ ولسن روزویلٹ اور کہاں ڈونلڈ ٹرمپ کیسی بلندی اور کیسی پستی۔ دور حاضر میں صرف چین ہی ایک ایسا ملک نظر آ تا ہے کہ جس نے ماﺅزے تنگ کے بعد بھی کئی ایسے لیڈر پیدا کئے جو اگر ماو¿ کے ہم پلہ تو نہ تھے پر بہت قائدانہ
صلاحیتوں کے مالک ضرور تھے‘ سوویت یونین میں بھی سٹالن کے بعد مضبوط لیڈرشپ کا قحط الرجال دیکھا گیا‘ فرانس میں جنرل ڈیگال کے بعد ان جیسا نابغہ دیکھنے میں نہ آ سکا‘ سپین کو جنرل فرانسیسکو فرانکو اور یوگوسلاویہ کو مارشل ٹیٹو کے بعد ان جیسے رہنما پھر نصیب نہ ہو سکے‘ کیوبا میں فیڈل کاسٹرو کے بعد کوئی ان جیسا دلیر اور دبنگ قسم کا لیڈر پھر نہ آ یا‘ انڈونیشیا میں سوئیکارنو‘ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا‘ مصر
میں جمال عبدالناصر جیسے رہنما پھرنہ آئے۔ تو بات ہم نے امریکی صدارتی الیکشن کے ذکر سے شروع کی تھی اور وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی‘ کیا وطن عزیز کو قائداعظم محمد علی جناح اور ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو نہرو جیسے لیڈر پھر نصیب ہوئے اس کا جواب بھی نفی میں ہے‘ برطانیہ کی بھی مثال دیکھ لیجئے گا۔ سرائیلی گلیڈسٹون اور ونسٹن چرچل کے پائے کے سیاست دان وہاں بھی اب ناپید ہیں۔ یہ درست ہے کہ مندرجہ بالا ممالک میں امور مملکت چلانے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف رہنما آتے رہے ہیں مگر پارلیمانی جمہوریت کا ایک خاصہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر ہفتے کے دوران ایک روز ایک گھنٹہ اس بات کے لئے مختص کر دیا جاتا
ہے کہ اس میں وزیر اعظم بنفس نفیس قومی اسمبلی کے فلور پر اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا از خود جواب دیتے ہیں اسی طرح اسمبلی ہو یا سینٹ ان کی کاروائی کے دوران ہونے والی تمام تقاریر کو ہرماہ ایک کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے اس ضمن میں انگلستان کے ہاو¿س آف کامنز اور ہاو¿س آف لارڈز میں ہونے والی تقاریر کو جس کتاب میں شائع کیا جاتا ہے اس کتاب کا نام ہے ہینسرڈ‘ کیا ہی اچھا ہو اگر مندرجہ بالا دو جمہوریت کے فروغ کے لئے کی جانے والی روایات کو ہم وطن عزیز کے پارلیمان میں بھی نا فذ کر دیں۔ اس ملک کے سیاسی مبصرین اکثر یہ بات طنزاً کیا کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی نیا حکمران اس ملک میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے تو وہ سب سے پہلے امریکہ کی یاترا پر جاتا ہے اور امریکی صدر کو اپنی آمد کی رپورٹ دیتا ہے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار نے ہمیں فائدے کے بجائے نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ امریکی حکومت کے اس حالیہ بیان کوکس قدر سنجیدہ لیا جا سکتا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتاہے‘ ایک دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے ہر ملک بشمول پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کو پیش نظر رکھ کر کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کی بلکہ یہ دیکھا کہ اس کے اپنے سیاسی مفادات کا حصول کیسے ممکن ہے‘ اگر کسی ڈکٹیٹر کی امداد کرنے سے اس کی دال گلتی تو اس نے کئی ممالک میں آمرانہ نظام کی بھی پشت پناہی کی ہے عالمی سیاست میں اس کے دوغلے پن کا یہ عالم ہے کہ وہ خود تو روس کے خلاف یوکرائن کی ہلہ شیری سے باز نہیں آ رہا‘ پر دوسری طرف اگر شمالی کوریا روس کی کوئی عسکری امداد کرنا چاہتا ہے تو اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔