شہر گم گشتہ کی تلاش

پرانا پشاور نہ جانے کہاں کھو گیا ‘وہ پشاوری جو اپنا وطن چھوڑ کر معاش کی تلاش میں کئی برس پہلے اپنی جنم بھومی چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے تھے آج جب وہ پشاور مڑتے ہیں تو وہ بڑی چیزوں کی کمی محسوس کرتے ہیں‘ قصہ خوانی کے وسط میں تاج سوڈا واٹر کے نام سے مشہور ایک چھوٹا سا ہوٹل اس تاریخی بازار کی پہچان ہے جس میں اپنے وقت کا لذیز ترین سوڈا واٹر دستیاب ہوتا تھا ان دنوں سیون اپ کوکا کولا وغیرہ جیسے مشروب مارکیٹ میں نہیں آئے تھے جنہیں آج کے ڈاکٹر fizzy drinks قرار دے کر مضر صحت قرار دیتے ہیں ‘قصہ خوانی کے وسط میں ہی صابری ہوٹل کے لمبی سیخوں پر بھنے ہوئے کبابوں کا چرچا تھا کچھ عرصے بعد کابلی گیٹ کے پچھواڑے سینما روڈ پر دو مزید ہوٹل جو جہانگیرہوٹل اور سلاطین ہوٹل کے نام سے مشہور ہو گئے ‘جس نے صابری ہوٹل کے لذیز کبابوں کا طلسم توڑ دیا ۔ سنیما روڈ پر تین سینما گھر واقع تھے جن میں ہر جمعہ کے روز ایک نئی فلم لگا کرتی‘ ان سینما گھروں کی موجودگی سے اس علاقے میں ہزاروں لوگوں کا کاروبار جڑا ہواتھا اور سینما روڈ رات گئے تک روشنیوں سے جگمگایارہتا تھا ۔ان کے نام تھے تصویر محل ‘ناولٹی اورپکچر ہاﺅس اب ان میں سے صرف ایک سینما پکچر ہاﺅس ہی باقی ہے جس میں پشتو زبان کی فلمیں ہی چل رہی ہیں‘ دوعشرے قبل تک اس سینما گھر میں پشتو کے علاوہ اردو اور ٰپنجائی کی فلمیں میں ریلیز ہوتی تھیں ‘ناولٹی میں اردو اور بعد میں پشتو فلموں کا دور دورہ تھا ‘اس روڈ پر واقع کئی مشروبات اور چائے کے ہوٹل بھی لوگوں کے معاش کا ایک ذریعہ تھے ۔آ سامائی گیٹ اور جناح پارک جو ان دنوں کنگنم پارک کہلاتا تھا کے قرب میں فردوس اور میٹروکے نام سے دو سینما ھاﺅسز بھی موجود تھے ‘ان دنوں صابرینہ شمع اور امان سینما ابھی نہیں بنے تھے حال ہی میں جب پشاور کے پرانے باسیوں کو یہ پتہ چلا کہ پشاور کے صدر میں واقع کپیٹل سینما اور فلک سیر سینما جس کا پرانا نام لینڈز ڈان سینما تھا اب نہیں رہے کہ ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر مسمار کر دیا گیا ہے تو ان کو مایوسی ہوئی کیونکہ ان کی عمارتیں پشاور کی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ تھیں ۔ارباب روڈ پشاور صدر میں لندن بک ڈپو کے نام سے کتابوں کی دکان میں ہر موضوع پر کتابیں مل جایا کرتی تھیں ۔صدر میں ہی خیبر میل پشاور کے نام سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے کا دفتر تھا جسے شیخ ذکاءاللہ نے سید عسکر علی شاہ کی زیر ادارت ایک لمبے عرصے تک چلایا تھا جو صحافتی حلقوں میں کافی مقبول تھا ‘جب کہ فلک سیر سینما کے ساتھ ہی روزنامہ الفلاح کا آفس اور پریس تھا جو دیرینہ صحافی سید عبداللہ شاہ اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے چلاتے رہے ‘اسی طرف قصہ خوانی کی نکڑ پر کابلی گیٹ پولیس سٹیشن کے سامنے روزنامہ شہباز کا دفتر تھا اور اس کے قریب ہی روزنامہ بانگ حرم کا دفتر جو ماسٹر خان گل کے زیر نگرانی چھپتا تھا جو عوامی لیگ کے ایک ممتاز سیاسی رہنما بھی تھے پشاور سے ہی ان دنوں جو دوسرے معروف روزنامے نکلتے ان میں سے جند ایک کے نام یہ ہیں انجام‘ ترجمان افغان‘ ھمارا پاکستان‘ الجمعیت سرحد اور الفلاح بڑے طمطراق سے پشاور سے شائع ہوتے ان میں الفلاح سمیت کچھ دوسرے اب بھی موجود ہیں۔گورنمنٹ بس سروس جو جی ٹی ایس کے نام سے مشہور تھی‘ اسی دور میں چلنا شروع ہوئی اس کی بسوں کی دیکھ بھال کے واسطے جی ٹی روڈ پر ایک ورکشاپ بھی بنی اور ہشتنگری گیٹ میں بسوں کا اڈہ بھی یہ بس سروس اپنی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے اتنی مشہو ہوئی کہ مسافروں کا اس کی بسوں میں سفر کرنے کے لئے رش کی وجہ سے ٹکٹ نہ ملتاتھا۔