جوہری تباہ کاریاں اوراسباق

 چھ اگست 1945ءکے روز امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر جوہری بم گرا کر دنیا کو دنگ کردیا اور بغیر کسی جرم ہزاروں افراد جوہری دھماکے سے پیدا ہونے والی آگ میں جھلس کر مر گئے یا خوفناک بیماریوں کا شکار ہوئے! جاپانی ابھی پہلے جوہری حملے کی تباہ کاریوں کو ہی شمار و برداشت نہیں کر پائے تھے کہ 9 اگست 1945ءکو ایک اور خوفناک ایٹمی حملے نے ان کی رہی سہی برداشت کو ختم کر دیا۔ اس بار نشانہ جاپان کا شہر ’ناگاساکی‘ تھا۔ مذکورہ دونوں حملوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد کی جانیں چلی گئیں‘ ہزاروں افراد زندہ لاشوں میں تبدیل ہوئے اور جوہری بموں نے زندگی کے نشانات ختم کر دیئے۔ تابکاری کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس کئے جا رہے ہیں جن کا سلسلہ جاری ہے۔ سال 2014ءمیں بزنس انسائیڈر میں شائع ہونے والے پیری بائنائم کے ایک مضمون کے مطابق‘ امریکہ ان 2 شہروں کی تباہی کے بعد مزید حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا لیکن ان کا مقصد یو ایس ایس آر کو نشانہ بنانا تھا۔ مصنف نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم اس بات کے ثبوت کے ساتھ ختم ہوگئی تھی کہ جوہری جنگ اصل میں کیا ہوتی ہے لیکن اس کے خاتمے کے صرف ہفتوں بعد ہی‘ امریکہ کے محکمہ¿ دفاع (پینٹاگون) نے جو کہ پہلے ہی اس بارے میں قیاس آرائیاں کر رہا تھا کہ جوہری حملوں سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پینٹاگون کا کہنا تھا کہ کسی شہر کو تباہ کرنے کے لئے ایک سے چھ ایٹم بم درکار ہوتے ہیں۔ امریکہ نے مجموعی طور پر چھیاسٹھ شہروں کی نشاندہی کی اور یہ طے کیا کہ ان سب کو نیست و نابود کرنے کے لئے مجموعی طور پر 204 ایٹم بم درکار ہوں گے۔ امریکی فوج کی فضائیہ کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بم روس کی زیادہ تر آبادی اور صنعت کو ختم کردیں گے۔ دو جاپانی شہروں پر ہونے والے وحشیانہ جوہری حملوں نے مغربی دنیا میں ردعمل اور غم و غصہ پیدا کیا‘ جنہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ جوہری بموں کے موجد البرٹ آئن سٹائن نے جاپان کے دو شہروں کی تباہی دیکھ کر لکھا کہ زیادہ بہتر ہوتا کہ اگر وہ جوہری سائنس دان بننے سے بجائے موچی بن جاتا۔ ایک اور سائنسدان برٹرینڈ رسل نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور وہ جوہری ہتھیار مخالف کارکنوں کے ساتھ تحریک میں شامل ہو گئے۔ جاپان پر جوہری دھماکوں نے دنیا کے ہوش اُڑا دیئے تھے۔سائنسدان رسل نے جوہری تباہ کاریوں اور ممکنہ ہولناکیوں کے خلاف اپنی تحریروں کے ذریعے دنیا کو آگاہ کیا اور عالمی رہنماو¿ں پر زور دیا کہ وہ بیسویں صدی کی اس انتہائی مہلک ایجاد سے دور رہیں۔ شاعر‘ دانشور‘ فنکار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد جوہری مخالف تحریک میں شامل ہوئے۔ ناول نگاروں نے ممکنہ جوہری جنگوں کے متعلق مضامین لکھے۔ فلم بینوں نے لوگوں کو جوہری بموں سے ہونے والی اموات اور تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن اِن سبھی کوششوں کے باوجود جوہری ہتھیار بنانے اور جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے لئے کوششیں ختم نہیں ہوئیں۔


 یہ سمجھنا مشکل ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں ایک کروڑ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ 1939-45ءکے دوسرے بڑے قتل عام میں 7 کروڑ اور اِس کے بعد دوسو سے زائد تنازعات اور تصادم میں لاکھوں ہلاکتیں دیکھنے میں آئیں۔ 1945ءمیں عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا لیکن جنگوں سے توجہ نہیں ہٹی‘انسانی تاریخ میں محفوظ واقعات کے مطابق دو ارب سے زائد افراد جنگوں کی وجہ سے زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کر دیئے گئے!سوویت یونین کے خاتمے کے بعد‘ اِس توقع کا اظہار کیا جارہا تھا کہ دنیا جنگ سے باز رہے گی اور اب ہمیشہ امن کی بات کی جائے گی۔ بہت سے لوگوں نے زور دے کر کہا کہ مطلق العنان ریاست کا خاتمہ امن و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور خواب تو خواب ہی رہے۔

 جوہری خطرہ ابھی بھی انسانیت کے سروں پر منڈلا رہا ہے اور یہ قابو میں نہیں۔ امریکہ کے دھمکی آمیز نقطہ نظر کی وجہ سے دوسرے ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی اپنے دفاع کے لئے حاصل کرنا پڑی۔ عراق کی تباہی‘ لیبیا کی تباہی اور شام میں خوفناک خانہ جنگی نے امریکہ مخالف ممالک کو اپنا دفاع مضبوط کرنے پر اُکسایا اور یہ تصور عام ہوا کہ اگر کوئی ملک اسلحہ سے لیس ہو جائے تو اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا یا تحلیل نہیں کیا جا سکے گا۔ تو لگتا ہے کہ ایران‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور دیگر چھوٹی چھوٹی ریاستیں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے خفیہ کوششیں کر رہی ہیں۔ مشرق وسطی میں‘ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کا مالک ہے۔ دنیا کو جنگ اور جوہری ہتھیاروں سے قطع تعلق کرنا ہوگا۔ اِس سلسلے میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے تجربات اور اسباق سب کے سامنے موجود ہیں۔ ہتھیار روایتی ہوں یا جوہری اِن سے خیر کی توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)