لوکل گورنمنٹ کومنصوبہ کریں

میونسپل اداروں کا کلچر خدا لگتی یہ ہے اس ملک میں پروان چڑھا ہی نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسے چلنے ہی نہیں دیا گیا تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی سیاسی پارٹیوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ بظاہر تو اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی کا ڈھنڈورا خوب پیٹتی ہیں اور مرکز پر سیاسی دباو¿ ڈال کر اپنے لئے اختیارات حاصل بھی کر لیتی ہیں پر آگے پھر وہ یہ فارمولا لوکل گورنمنٹ پر اپلائی نہیں کرتیں اسی دوغلے پن کی وجہ سے اس ملک میں لوکل گورنمنٹ کے ادارے بے دست و پا ہیں ہم اپنی بات کو ایک چھوٹی سی مثال کے ساتھ آگے بڑھائیں گے ہر سال جب ساون کی جھڑی لگتی ہے تو بارش کا پانی عوام کے لیے باعث رحمت کی جگہ باعث زحمت بن جاتا ہے بارش کا پانی ایک سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس سے ہمارے ہر بڑے شہر کی سڑکیں یا تو نہروں کا سماں پیش کرتی ہیں اور یا پھر تالابوں کا نقشہ اور اس صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کا وہ متعلقہ محکمہ جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہروں کی نالیوں اور پانی کی قدرتی گزرگاہوں کو روزانہ کی بنیادوں پر صاف اور کھلا رکھے گا وہ اپنا کام نہیں کر رہا بلکہ کئی شہروں میں تو پانی کی ان قدرتی گزرگاہوں میں یار لوگوں نے گھر بنا رکھے ہیں اور انہیں کسی نے ایسا کرنے سے روکا ہی نہیں اس کے علاوہ یار لوگ ہر قسم کا گند اور کچرا ان نالوں اور پانی کی گزرگاہوں میں تواتر سے پھینکتے ہیں اور میونسپل اداروں کے اہلکار چشم پوشی کرکے ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کرتے اس غفلت کا پھر منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو بارش کے پانی کو جب رستہ نہیں ملتا تو وہ سڑکوں پر جمع ہوکر ان کا ستیا ناس کر دیتا ہے۔

 اور اربوں روپے سے بنائی گئی ان سڑکوں کی تعمیر نو پر کروڑوں روپے کا خرچہ اٹھ جاتا ہے اور تو اور اس ملک میں کئی شہروں اور علاقوں میں میں یار لوگوں نے کھائی تک نہیں چھوڑی اور پانی کی قدرتی گزرگاہ کے اندر ہاو¿سنگ کالونیاں تعمیر کر رکھی ہیں ان میں بعض ایسے علاقے ہیں کہ جن میں ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پچاس سال کے بعد ان پانی کی گزرگاہوں میں سیلاب آیا کرتا ہے اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ جب وقت مقررہ پر ان گزرگاہوں سے وہ سیلاب گزرے گا تو ان رہائشی کالونیوں کے مکینوں کا کیا حشر نشر ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شہر میں بسنے والے لوگوں کے 50 فیصد مسائل کا براہ راست لوکل گورنمنٹ کے اداروں سے تعلق ہوتا ہے اور اگر شہروں میں میونسپل ادارے مکمل طور پر فعال ہوں اور با اختیار بھی تو ان کے بیشتر مسائل کا مداوا لوکل سطح پر ہو سکتا ہے پر یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب صوبائی اسمبلیوں کے اراکین میونسپل اداروں کو مکمل طور پر اختیارات دینے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں ماناکہ کسی بھی جمہوری ملک کا ہر فرد کسی نہ کسی سیاسی نظریے پر یقین رکھتا ہے پر قطع نظر اس حقیقت کے جب بھی لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے انتخابات کرائے جائیں تو وہ خالصتا غیر سیاسی بنیادوں پر ہوں تب ہی جاکر عام آدمی کے روزمرہ کے مسائل میرٹ پر بغیر کسی سیاسی مصلحت کے حل کئے جا سکتے ہیں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو بالکل یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ تحصیل یا ضلعی انتظامی یا میونسپل معاملات میں بے جا مداخلت کریں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے اراکین کا کام صرف اور صرف قانون سازی ہے ۔دیکھا جائے تو عوامی مسائل میں سے زیادہ کا تعلق مقامی سطح پر پیش آنے والی مشکلات سے ہے اگر مقامی حکومتوں کی سطح پر ان کا حل نکالا جائے تو نہ صرف عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے بلکہ اس سے حکومتی امور میں بھی روانی آئے گی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو فعال اور بااختیار بنایا جائے۔