کسی سیاسی جماعت کی کامیابی اُس کے انتخابی منشور پر عمل درآمد کے تناظر میں دیکھی اور سمجھی جاتی ہے‘ تحریک انصاف نے ماضی میں قوم سے جو بھی وعدے کئے اُن پر نظر ڈالتے ہوئے نئے پاکستان کی تخلیق پر ہونے والی تنقید اور تبدیلیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے‘ سیاسی قائدین کی تقاریر کے بعض حصے (کلپس) بار بار دکھانا لطیفے کی بات بن چکی ہے یقینا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم ان کلپس کو دیکھتے ہوئے اپنی فیصلہ سازی پر نظرثانی کرتے ہوں گے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے قول و فعل کی ذمہ دار نہیں ہوتیں اور جس کسی سیاسی جماعت کو اُس کے ماضی کا آئینہ دکھایا جائے تو وہ اِسے سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دیتا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضوں کے حصول میں تاخیر کے سبب غیرمعمولی معاشی نقصان ہوا اگرچہ عمران خان کرکٹ کے میدان میں ایک بہترین کھلاڑی تھے اور انہیں اپنے منصوبوں کے لئے چندہ جمع کرنے میں خاصی کامیابی حاصل رہی حکمرانی کے لئے مذاکرات اور سمجھوتے کے فن پر عبور رکھنا ضروری ہوتا ہے‘ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ انہوں نے حلف اٹھایا تھا کہ وہ ملک کے قائد کی حیثیت سے ماضی کے حکمرانوں کی طرح غلطیاں نہیں کریں گے لیکن پھر وہی دیکھنے میں آیا جو اُن سے قبل ہوتا رہا ہے‘ حکومت کے پاس اب ملک کو بہتر بنانے اور اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے تین سال سے کم عرصہ باقی ہے جو بہت زیادہ عرصہ نہیں۔
تحریک انصاف سے قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز نے باری باری حکومت کی اور مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے ماضی میں جھانک کر نہیں دیکھا بلکہ ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کیا کیونکہ وہ اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی تیسری جماعت ملک میں اتنی بڑی قوت بن کر اُبھرے گی کہ وہ حکومت قائم کر لے گی اور یہی اِن دونوں جماعتوں کی بھول رہی کہ اِنہوں نے اُس خطرے کو بروقت نہیں دیکھا جو اِن کے سروں پر بیس برس سے منڈلا رہا تھا۔ تحریک انصاف پاکستان کی سیاست میں ’سیاسی متبادل‘ کے طور پر سامنے آئی لیکن ابتدائی دو برس کی کارکردگی سے عیاں ہے کہ سیاسی متبادل کے طورپر سامنے آنے والی اِس جماعت نے کارکردگی کے وہ بلند معیار قائم نہیں کئے جنہیں بطور مثال پیش کیا جا سکے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ بار بار سیاسی جماعتوں سے دھوکہ کھانے والے پاکستان کے عوام تحریک انصاف کو بھی معاف کر دیں گے؟ اکثر کا خیال ہے کہ یہی سوال پاکستان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا اور یہ ہماری سیاسی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘عوام منتظر ہیں کہ اُن کی زندگیوں میں بہتری آئے۔
ماضی کے حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے سلسلہ ختم ہونا چاہئے کیونکہ اب سب کچھ تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے‘پنجاب کی صوبائی حکومت کی کارکردگی سے لیکر خیبرپختونخوا کے ترقیاتی منصوبوں تک تحریک انصاف کو جائزہ لینا چاہئے کہ اُس کی غلطیوں میں وزیروں اُور مشیروں کی ہم آہنگی کا نہ ہونے نے کس قدر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تحریک انصاف کے لئے ملک میں احتساب کی ساکھ بحال کرنا بھی ضروری ہے گزشتہ برس نواز لیگ کے رہنما‘ سابق وزیر داخلہ پنجاب رانا ثناءاللہ کو بھاری مقدار میں منشیات کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور قوم کو بتایا گیا کہ اِس واقع کی ویڈیو موجود ہے لیکن یہ ویڈیو منظرعام پر نہیں لائی گئی ‘تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے اِس جماعت کو کامیاب و کامران اور سرخرو دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کے احساس پروگرام اور دیگر حکمت عملیوں سے اُمید کی ایک کرن پائی جاتی ہے کہ اگر تحریک انصاف چاہے تو حالات کا رخ اور توازن اب بھی اپنے حق میں موڑ سکتی ہے‘ تحریک انصاف نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کو نئے نام سے متعارف کروایا اور مالی امداد کے اِس پروگرام کے ذریعے مستحق طبقات تک رسائی کے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کیا لیکن یہ اصلاحاتی عمل کہیں گم ہو گیا ہے‘ اِسی طرح تحریک انصاف سے توقع تھی کہ یہ ملک میں کھیلوں کو ترقی دے گی کیونکہ ایک کپتان کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا ہے لیکن ایسا بھی نہ ہو سکا تحریک انصاف کو عوام کی توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش کرنی چاہئے اور حکومت ملنے کی صورت ملنے والے اِس نادر موقع کے ہر ایک منٹ سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ جس انداز میں اِن کا انتخاب متبادل سیاسی قیادت کے طور پر کیا گیا تھا یہ اگر عوام کے اِس فیصلے کو درست ثابت کریں تو ایک لمبے عرصے کے لئے پاکستان پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)