یکساں نصاب تعلیم

 پاکستان میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے لئے بحث و مباحثہ جاری ہے اور اِس سلسلے میں حکمراں جماعت تحریک انصاف پیش پیش ہے‘ جس نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرکے یکساں نصاب متعارف کروائے گی۔ نصاب کو یکساں اور متوازی کرنے کےلئے حکومتی کوششوں کو تین مراحل میں تقسیم کرکے سمجھا جا سکتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم۔ تعلیمی اداروں کا ایک جیسا نظام اور غیرملکی امتحانات کے سلسلوں کا خاتمہ اور تیسرا یکساں نصاب تعلیم۔ماہرین تعلیم کی اکثریت کا اتفاق ہے کہ ابتدائی درجات میں تعلیم صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ہونی چاہئے کیونکہ مادری زبان کے علاوہ اُردو اور انگریزی زبانوں میں درس و تدریس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیںلیکن پاکستان میں مادری زبانوں کی اہمیت جاننے کے باوجود بھی فیصلہ ساز اور عوامی سطح پر اِس کے بارے زیادہ بحث و مباحثہ نہیں ہورہا اور یوں لگتا ہے کہ مادری زبان کی اہمیت کے بارے تقاریر کرنے والے اور اِس کے حق میں دلائل دینے والے اپنی اپنی جگہ قائل ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ اُردو اور انگریزی زبانوں ہی میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ دوسرا نکتہ غیرملکی امتحانات کا ہے اور وفاقی حکومت جس نے پہلے اعلان کیا تھا کہ غیرملکی امتحانات نہیں ہوں گے اپنے اِس بیان سے مکر گئی اور ایک ’یو ٹرن‘ لیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں غیرملکی بورڈ امتحانات والے بیان سے رجوع کرلیا۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ اُنہوں نے اُن تمام طلبہ کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں سوچا ہو جو دنیا کے ایک بہترین اور بلند نظام سے وابستہ ہیں اور اُن کے لئے کسی نچلے درجے کے نصاب اور امتحانی نظام سے وابستہ ہونا ممکن نہیں ہوگا۔

 جب حکومت نجی اداروں کو غیرملکی امتحانات میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے تو اِس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ ملک میں کم سے کم 2 قسم کے نظام تعلیم کی حمایت کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ دونوں اقسام کے امتحانی نظام جاری و ساری رہیں۔ ایک طرف کیمبرج اور آئی بی کے امتحانات ہوں گے اور دوسری طرف امتحانی بورڈز اور مدارس کے اپنے امتحانی بورڈز فعال ہوں گے تو کیا اِن سے نتیجے کے طور پر برآمد ہونے والے طلبا و طالبات کی ذہنی استعداد و صلاحیت مساوی ہوگی اور وہ کسی ایک درجے میں ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے مساوی تعلیم یافتہ ہوں گے؟ نصاب تعلیم کا سیدھا سادا مفہوم‘ مطلب اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی معاشرے میں بچوں کو یکساں ذہنی سطح کے مطابق علوم سے آشنا کیا جائے۔ نصاب تعلیم صرف کتابوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اِس میں طلبہ کی قابلیت و ذہانت کی جانچ سے لیکر اُن کی شخصیت میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کی پہچان بھی ہوتی ہے اور اُن میں نکھار لانے کے لئے اساتذہ کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں قومی سطح پر مربوط کوشش سال 2006ءمیں ’نیشنل کریکولم‘ کی صورت سامنے آئی جس کے تحت درس و تدریس کے کم سے کم معیار کا تعین کیا گیا اور اِس بات کو بھی دھیان میں رکھا گیا کہ کونسا بچہ کس عمر میں قابلیت کے کس درجے پر ہوتا ہے اور اُس کے ساتھ عمر کے ساتھ کس قسم کے نصاب تعلیم سے برتاو¿ کیا جائے۔

 لائق توجہ بات یہ ہے کہ قومی سطح پر نصاب تعلیم مرتب کرنے کی مذکورہ کوشش کے بعد جو دستاویز مرتب ہوئی اُس کے ہر صفحے پر ایک جملہ بطور خاص درج کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ ”ایک قوم ایک نصاب (تعلیم)۔“ کیا واقعی پاکستان کی قومی حکمت عملی میں ایک نصاب تعلیم پر ہی توجہ مرکوز ہے جس سے ایک قوم اُبھرنے کا ہدف ذہن میں رکھا گیا ہے؟ حکومتی سطح پر حکمت عملیاں بنانے اور اِن حکمت عملیوں پر عمل درآمد دو الگ الگ سمتوں میں رواں دواں دکھائی دیتا ہے۔ فیصلہ ساز اپنے فیصلوں میں آزاد لیکن اِن فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں خاطرخواہ آزاد نہیں۔ دنیا ایک ”گلوبل ویلیج“ ہے جہاں ممالک ایک دوسرے سے زیادہ قریب اور بالخصوص تعلیم کے شعبے میں ایک دوسرے سے متصل ہیں لیکن نصاب کا مسئلہ صرف اُن ممالک کا ہے جو ترقی پذیر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنا نصاب تعلیم مرتب کرنے میں کسی دوسرے ملک کے مفاد کا خیال نہیں رکھا بلکہ خالصتاً اپنی مقامی و قومی ضرورت کے تحت تعلیم کے عمل کو شروع کیا اور نصاب تعلیم میں وقت کے ساتھ اصلاحات کرتے چلے گئے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)