سری لنکا حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دوستی کے رشتے کو نئی جہت اور توانائی دینے کے لئے 1985ءمیں ہاتھی کا ایک بچہ تحفے میں دیا گیا ‘یہ ایشیائی نسل کا ہاتھی جس کا نام ’کاوان (Kaavan)‘ تھا کی تمام زندگی اسلام آباد کے چڑیا گھر میں بسر ہوئی جہاں وہ تنہائی کا شکار تھا اور یہ معاملہ ایک معروف گلوکار کے ذریعے عدالت پہنچا جس نے ”تنہائی کے شکار“ اِس ہاتھی کو کمبوڈیا بھیجنے کا حکم دیا جہاں اِسے مزید ہاتھیوں کے ساتھ میل جول رکھنے کا موقع مل سکے کیونکہ ’تنہائی کے باعث وہ ذہنی امراض کا شکار ہو گیا تھا‘۔پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”کسی جانور کے ساتھ کیا جانے والا اچھا سلوک اتنا ہی قابل قدر ہے جتنا کسی انسان کے ساتھ کیا جانے والا برتاو¿ جبکہ کسی جانور کے ساتھ ظلم و بربریت کا ارتکاب اُتنا ہی بُرا عمل ہے جتنا کسی انسان پر ظلم کیا جائے۔“ اِسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مثالی اور تاریخی فیصلے میں لکھا کہ ”یہ عدالت جانوروں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور اِن کے حقوق کا احترام بھی یکساں طور پر ہونا چاہئے بلکہ یہ اِنسانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے جیسے بنی نوع انسان کے علاوہ دیگر ’ہم زمین جانداروں‘ کے حقوق کا تحفظ کریں‘ اور اُن کے تحفظ اور بچاو¿ کو فراموش نہ کریں۔“ کاوان نامی نرہاتھی کا بچہ اپنی پیدائش (1985ئ) سے زنجیروں میں جھکڑا رہا۔ اُسے تین دہائیوں سے چڑیا گھر میں رکھا گیا ہے اور اِس دوران اُس سے روا رکھا جانے والے بے رحم سلوک کے سبب وہ جس اذیت سے گزر رہا ہے‘ حقیقی معنوں میں اُس کا اندازہ محسوس نہیں کیا جاسکتا۔
اِس ہاتھی سے روا رکھا گیا سلوک جنگلی حیات سے متعلق مجریہ 1890ءکے تحت جرم ہے اور مذکورہ قانون کے تحت چڑیا گھر کی اِنتظامیہ کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ عدالتی حکم کے تحت کاوان کو کسی ایسی مناسب جگہ منتقل کیا جائے جہاں اُس کی ہم نسل ہاتھی موجود ہوں۔ کاوان نامی ہاتھی سے متعلق ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ کے مذکورہ فیصلے کی عالمی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر معروف قانون دان اور ہارورڈ لاءسکول کے معلم لارئنس ٹرائب نے ’نیویارک سپریم کورٹ میں ایک دستاویز جمع کروائی ہے جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے اِسے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ جانوروں کے حقوق سے متعلق ایک منصوبے کے سربراہ کیون شیناڈر کا کہنا ہے کہ ”کاوان نامی ہاتھی کے حقوق کا احساس کرنے سے متعلق (جسٹس اطہر من اللہ کا) فیصلہ قابل ذکر و توجہ ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اِس فیصلے سے امریکہ کی مختلف ریاستوں کی عدالتیں بھی خودکوآگاہ کریں گی۔“ جانوروں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی مذکورہ تنظیم کے ایک اور اہلکار سٹیون وائز نے مذکورہ عدالتی فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”کاوان کے حقوق اور آزادی کے بارے میں قانونی نکتہ¿ نظر جان کر خوشی ہوئی اور ہم جسٹس من اللہ کے مشکور ہیں جنہوں نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ اور اِس عمل کی اہمیت کا احساس کیا ہے اور اِس فیصلے سے انسانوں اور جانوروں کے حقوق سے متعلق قوانین میں پائے جانے والے فاصلے اور الگ الگ ہونے کا تاثر زائل ہو جائے گا“ جس طرح زمین پر رہنے والے انسانوں کے حقوق ہیں بالکل اِسی طرح زمین پر رہنے والے جانوروں کے بھی یکساں حقوق ہیں اور اُن کا یکساں بنیادوں پر احساس و تحفظ ہونا چاہئے۔ کینیڈا کی سپریم کورٹ کے مطابق ”انصاف کی فراہمی کے نظام میں کسی جج کی حیثیت ستون جیسی ہوتی ہے“ اور عوام کو اِس بات کا تقاضا کرنے کا حق حاصل ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی کے نظام کی فعالیت پر زور دیں ‘حقیقت حال یہ ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے ’کاوان‘ نامی ہاتھی سے متعلق اپنے فیصلے کی صورت ایک چھوٹا سا قدم اُٹھایا لیکن اِس سے جنگلی حیات کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک بڑی مسافت طے ہوئی ہے۔
قرآن کریم کی چھٹی سورہ انعام کی 38ویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ”زمین پر رہنے والے چرند پرند بھی انسانوں کی طرح (اللہ کی پیدا کردہ) مخلوقات ہیں۔“ یعنی جس طرح زمین پر انسانوں کو پیدا کیا گیا بالکل اِسی طرح جانوروں کو بھی خاص حکمت کے تحت پیدا کیا گیا ہے اور زمین کی خوبصورتی اور اِس حیاتیاتی نظام کا توازن اِس میں ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام مخلوقات کے حقوق کا اِحساس کریں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے قول و فعل سے دوسروں کے لئے رحمت کا ظہور ہو۔ وہ ہر کس و ناکس کے لئے شفیق ہو اور جانوروں سے پیش آتے ہوئے نرمی کا معاملہ اختیار کرے۔“ ایک اُور حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ”اگر کوئی شخص کسی چڑیا پر بھی رحم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اُس پر رحم فرمائیں گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ ”بے زبان جانوروں پر ظلم کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔
اِس لئے جانوروں سے معاملہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے خوف محسوس کرنا چاہئے۔“ کسی نے پوچھا کہ کیا جانوروں سے حسن سلوک کرنے کا کچھ اجر بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے اسلام میں جانوروں کے حقوق سے متعلق نظریئے کی تکمیل کر دی کہ ”ہر جاندار کی خدمت کا صلہ مقرر و معین ہے جو محشر میں دیا جائے گا۔“جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ”کاوان نامی ہاتھی سے اسلام آباد چڑیا گھر کے اندر روا رکھا گیا سلوک مجرمانہ ہے۔“ وضاحت ہو گئی ہے کہ اگر کسی جانور یا جانوروں کی آزادی اور اُس کے رہن سہن پر پابندیاں عائد کی جائیں گی تو یہ قانون کی نظر میں جرم ہوگا۔ یہ تاریخی فیصلہ 21مئی کو سنایا گیا تھا لیکن ’کاوان‘ نامی ہاتھی کی قسمت ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی۔ عدالت کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں ’کاوان‘ ہاتھی کو آزادکر دینا چاہئے تھا لیکن یہ تاحال چڑیا گھر کی کشش کا باعث ایک نمائشی ضرورت بنا کر رکھا گیا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)