جمہوری سکو ن و راحت

 وفاقی حکومت نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی وہ کامیاب رہی اور اِس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا ہے لیکن کسی وبا سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کرنا کافی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اِسے ملک کے جمہوری نظام کو مضبوط بناتے ہوئے ایک ایسی سیاسی ہم آہنگی کا ماحول تشکیل دینا ہے جس میں اختلافی نکتہ نظر کو یکساں اہمیت حاصل ہو اور جب یہ ہدف حاصل ہو جائے گا تو کسی بھی ہنگامی صورتحال چاہے وہ وبا ہو یا قدرتی آفت ملک و قوم کا اُس سے نکلنا زیادہ آسان ہوگا۔ کورونا وائرس سے نمٹنے میں کئی بڑے اور قدیم جمہوری ممالک ناکام و بے بس نظر آتے ہیں جن میں بھارت‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور برازیل جیسے ممالک شامل ہیں جو تکنیکی اعتبار سے کورونا وبا کے خطرے سے زیادہ آگاہ تھے لیکن وہ اپنے ہاں جانی و مالی نقصانات کو نہ روک سکے لیکن غیرجمہوری اور آمریت کہلانے والے ممالک جیسا کہ چین اور کیوبا نے اپنے ہاں مضبوط طرز حکمرانی کی وجہ سے کورونا وبا کو اِس کامیابی سے روکا کہ دنیا حیران ہو گئی۔ کورونا وبا دنیا بھر میں قریب 7 لاکھ34 ہزار جانیں لے چکی ہے اور اِس وبا سے 20 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ اِن متاثرین میں اکثریت جمہوری ممالک سے تعلق رکھتی ہے‘کورونا کے باعث برازیل میں پانچ لاکھ بیاسی ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے جن میں سے ایک لاکھ چھتیس ہزار سے زیادہ جانبر نہ ہو سکے اور اِن متاثرہ یا انتہائی متاثرہ افراد میں اُن سبھی کی اکثریت تھی جنہوں نے کورونا وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اِس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

برازیل حکومت نے بھی کورونا وبا کو معمولی سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف حکومتی شخصیات اور قومی فیصلہ ساز بھی اِس سے متاثر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ برازیل میں قومی فیصلہ سازوں کو ’کورونا وبا‘ اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے لئے ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ کورونا سے متاثرہ دنیا نے جو ایک بات سمجھی ہے وہ یہ ہے کہ اگر حکمران خطرات کا بروقت اِدارک کریں اور سنجیدگی یا سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں تو بہت سارے امور بہ احسن طے پا سکتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت بھی ’کورونا حملے‘ کی زد میں ہے۔ بھارت میں مجموعی طور پر تین لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں جبکہ وہاں بائیس لاکھ سے زیادہ لوگ کورونا وبا سے متاثر ہیں۔ بھارت کا اقتصادی اور معاشرتی استحکام تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ دیگر جمہوری ریاستوں کی صورت حال بھی بھارت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ برطانیہ میں کورونا کے سبب چھیالیس ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں کیونکہ اس متعدی بیماری نے آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو بھی متاثر کیا ہے۔ اٹلی میں پینتیس ہزار کے خاتمے کے علاوہ ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد وائرس کا شکار نظر آتے ہیں۔ وبائی بیماری کے دوران تیس ہزار سے زیادہ فرانسیسی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سپین اور جرمنی نے بالترتیب اٹھائیس ہزار اور نو ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

 دونوں مملک کے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو بھی مہلک وائرس نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ اگر ہم ان تمام ریاستوں کا جائزہ لیں جہاںکورونا کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام ممالک نسبتاً زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں معیشت آزاد اصولوں پر استوار تھی۔ ان ممالک میں سے بیشتر نے اپنے بنیادی نظام کو اجناس میں بدلا۔ صحت کے نظام کو تجارت بنایا اور کورونا سے مالی فائدہ اُٹھایا۔ ادویہ ساز کمپنیوں اور انشورنس فرموں نے بھی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جس کی وجہ سے عوام کو بے حد تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کورونا وبا نے دنیا میں طرزحکمرانی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور کورونا وبا سے اِس وجہ سے زیادہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے کیونکہ جمہوری رہنماو¿ں کا غیر جمہوری رویہ بھی ایک سبب رہا جس کی وجہ سے کورونا متاثرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور اِس کے نتیجے میں زیادہ اموات شمار میں آئیں۔ مثال کے طور پر پہلے دن سے‘ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کورونا وبا کا ماحولیاتی آلودگی کی طرح مذاق اُڑایا۔

 امریکہ میں بڑے پیمانے پر سماجی دوری کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں کیونکہ وہاں کی حکومت عوام کو اِس بات کا باورکرانے میں ناکام رہی کہ کورونا وبا خطرہ ہے اور اِسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ دنیا کے کئی ممالک میں حکومتوں کی کارکردگی پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ برطانیہ اور بھارت میں عوام نے حکمرانوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے کیونکہ اِن ممالک کے نام نہاد جمہوری رہنماو¿ں نے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی خاطرخواہ پرواہ اور احساس کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ خلا میں جانے اور زمین کی تہہ کو چھاننا انسانوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے لیکن درحقیقت بنی نوع انسان کو بیماریوں سے بچانے میں ناکامی نے ثابت کیا ہے کہ انسانوں کو اپنا طرز زندگی اور طرز حکمرانی دونوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)