برصغیرکانقشہ اورکشمیر

کشمیر کے بارے میں بھارت کی جابرانہ پالیسیوں کے جواب کے طور پر‘ پاکستان کی جانب سے نیا سیاسی نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ نقشہ اس سے پہلے جاری کردہ مضحکہ خیز بھارتی نقشے کی درست شکل ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائے گئے بھارت کے غلط نقشے کو دیکھ کر جنوب ایشیائی خطہ بہت مختلف نظر آنے لگا ہے۔ سب سے پہلے‘ نئی دہلی نے آزاد کشمیر کو نئے نقشہ میں بھارت کا حصہ بنا کر پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ گلگت بلتستان کو بھی بھارت ہی کے کشمیر میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے جواب میں‘ پاکستان نے حدود کا تعین کرتے ہوئے نقشے میں پورے کے پورے کشمیر کو اپنی حدود میں ڈال لیا جبکہ واضح طور پر یہ کہتے ہوئے کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے اور اسے کنٹرول لائن کے ذریعہ تقسیم کیا گیا ہے اُور پاکستان عالمی اداروں کے سامنے یہی مو¿قف پیش کرتا ہے لیکن۔ اِس سلسلے میں نیپال نے بھی بھارت کے ساتھ اپنی سرحد کا ایک مختلف نقشہ پیش کیا ہے اور یوں ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ تاریخ کے اِس موڑ پر اپنی حدود کا تعین کرے اور ہر ملک اپنا اپنا وہی سیاسی نقشہ منظرعام پر لے آیا ہے جو اُس کی سوچ ہے۔ کیا اِس سے ممالک کے درمیان تنازعات میں کمی آئے گی یا اِن میں اضافہ ہوگا؟ پاکستان کا استدلال ہے کہ اس کی حکمت عملی دنیا کو یہ یاد دلانے کی کوشش ہے کہ نئی دہلی کے دعوے کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے یقینا یہ بالکل درست مو¿قف ہے۔ صرف بھارت کے زیرتسلط کشمیریوں ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ وہ خود کو نقشہ پر کہاں دیکھنا چاہتے ہیں اور اُنہیں کس قسم کی آزادی یا خودمختاری چاہئے۔ کشمیریوں کے پاس حقیقی آپشن بہت کم ہیں وہ سات عشروں سے جدوجہد کر رہے ہیں ۔

حالانکہ اصولی طور پر کشمیر کا فیصلہ 1947ءہی میں ہو جانا چاہئے تھا اور اُس وقت ایسا ہونا زیادہ آسان اور ممکن تھا۔ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو زیادہ وسیع پیمانے پر اٹھانے میں ناکام رہنے پر پاکستان اکثر تنقید کرتا ہے۔ پاکستان کی حمایت میں ایران‘ ترکی اور ملائشیا بول رہے ہیں لیکن باقی مسلم ممالک کہ جن کا بھارت اور عالمی سطح پر نسبتاً زیادہ اثرورسوخ ہے وہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں بالخصوص مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم اِس بارے میں غیرضروری طورپر مصلحت سے کام لے رہی ہے۔ بلاشبہ نئی دہلی میں موجودہ فاشسٹ انتظامیہ اور بھارت کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی بنیادی طور پر کشمیریوں پر مظالم کے حالیہ نئے دور کے لئے ذمہ دار ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ابتدائی طور پر یہ مسئلہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے تقسیم کے نازک موقع پر شروع کیا اور اِسے اپنے مفادات کے لئے باقی رکھا گیا۔ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کو تقسیم کا جو مشکل کام سونپا گیا تھا اُس میں ناقابل یقین جلد بازی کامظاہرہ کیا گیا۔ ماو¿نٹ بیٹن نے سائرل ریڈکلف کو بھارت طلب کیا تاکہ ایک لائن تیار کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے جو پاکستان جانے والے حصوں کو بھارت سے الگ کرے گی۔ دو ممالک کے وجود میں لانے کا جو انتہائی اہم اور پیچیدہ کام کیا گیا اس کو مکمل کرنے کے لئے صرف ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ ریڈکلف نے خود بتایا تھا کہ وہ ایک وکیل کی حیثیت سے اس کام کے لئے انتہائی غیرموزوں تھے جو برصغیر اور اس کی پیچیدگیوں کے بارے میں بھی بہت کم علم رکھتے تھے۔

 ریڈکلف کے ساتھ کام کرنے والے کمیشن کو بھی بہت ساری باتوں کا علم نہیں تھا۔ معاملات کو اور بھی خراب کرنے ریڈکلف کی بیماری نے کیا جنہوں نے جلدی میں اپناکام مقررہ وقت سے پہلے اور سوچ بچار کی بجائے جلدی سے ختم کردیا اور گھر (برطانیہ) واپس لوٹ گئے۔ ان ناگوار حالات میں پاک بھارت لائن آف کنٹرول تیار کی گئی تھی اور نیا نقشہ دونوں ممالک کو سترہ اگست کے روز سونپا گیا۔ کچھ مورخین نے جو 1947ءکے واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ تقسیم کے بعد جلد ہی اور اس کے بعد کے سالوں میں ریڈکلف لائن نے درپیش مسائل میں کافی حد تک تعاون کیا لیکن مسئلہ حل نہ ہوسکا۔جس کے بعد لاکھوں افراد نے تاریخ کی سب سے بڑی اجتماعی ہجرت کی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد میں کم از کم دس لاکھ اور ممکنہ طور پر بیس یا تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد اور بھارت میں ہندوو¿ں اور سکھوں کو آباد کرنے کی کوشش میں‘ مزید خونریزی ہوئی۔ ہمیں ایسے حل پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو کئی دہائیوں سے دنیا کی تقسیم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جاری سلسلے کو روکنے کا باعث بنیں۔ نقشے بنانے اور اُنہیں سرکاری طور پر جاری کرنے میں احتیاط کے ساتھ گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔کشمیر کا معاملہ نقشہ جات پر کھیلے جانے والے کھیلوں سے کئی گنا زیادہ بڑا‘ سنگین اور قابل توجہ ہے کیونکہ اِس کا تعلق حقیقی لوگوں اور حقیقی زندگی سے ہے۔تقسیم ہند کا اصل نقشہ وہی ہے جس میں کشمیر کو اس کی حقیقی حیثیت دی گئی ہے اور بھارت کے کاغذی نقشوں سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)