آزادی اورتاریخی واقعات

چودہ اگست اُنیس سو سینتالیس کی تقویم کے مطابق مذکورہ ہفتے بروز جمعرات‘ ہجری تاریخ ستائیس نہیں بلکہ چھبیس رمضان المبارک تھی۔ پاکستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ آزادی کے گیارہ ماہ بعد ’9 جولائی 1948ئ‘ کو جاری ہوا تھا جس پر واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی پندرہ اگست اُنیس سو سینتالیس طبع ہے تو پھر یوم آزادی کی پہلی سالگرہ چودہ اگست 1948ءکو کیوں منائی گئی اور یوں ذہن ایک مرتبہ پھر الجھ جاتا ہے کہ پاکستان آزاد کب ہوا تھا چودہ اگست یا 15 اگست 1947؟ اگر ہم چودہ اگست سینتالیس کو آزاد ہوئے تو آزادی کے گیارہ ماہ بعد شائع ہونے والے ڈاک ٹکٹوں پر یوم آزادی کی تاریخ پندرہ اگست کیوں درج ہوئی اور اگر پاکستان پندرہ اگست کو آزاد ہوا تو آزادی کی پہلی سالگرہ پندرہ اگست کی بجائے چودہ اگست 1948ءکیوں منائی گئی اور یہ سلسلہ آج تک چودہ اگست ہی کے روز کیوں جاری ہے؟انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ 1947ءبرطانوی پارلیمان کا منظور شدہ ہے اور اِس کی توثیق شہنشاہ برطانیہ جارج ششم نے 18جولائی 1947ءکے روز کی تھی۔ مذکورہ قانون کی ایک نقل پاکستان کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی نے (جو بعدازاں پاکستان کے وزیراعظم بھی بنے) چوبیس جولائی 1947ءکے روز قائداعظمؒ کو ارسال کی۔ مذکورہ قانون 1983ءمیں حکومت برطانیہ کی شائع کردہ دستاویز ’دی ٹرانسفر آف پاور‘ کی بارہویں جلد کے صفحہ 234 پر شائع ہوا ہے اور اس کا ترجمہ قائداعظم پیپرز پراجیکٹ نامی منصوبے کے تحت حکومت پاکستان نے بھی شائع کیا ہے جو ’جناح پیپرز‘ کے نام سے اردو ترجمے کی تیسری جلد کے صفحہ پینتالیس سے بہتر پر شامل ہے اور اس قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ پندرہ اگست 1947ءسے برطانوی انڈیا میں دو آزاد فرماں روا مملکتیں قائم کی جائیں گی جو باالترتیب انڈیا اور پاکستان کے نام سے موسوم ہوں گی۔

بعدازاں اس قانون میں ’ان مملکتوں‘ سے مطلب نئی مملکتیں اور ’مقررہ دن‘ سے مراد پندرہ اگست کی تاریخ ہوگی۔ حکومت برطانیہ نے یہ اعلان تو کر دیا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ایک ہی وقت یعنی پندرہ اگست کو آزاد ہوں گے مگر مسئلہ یہ ہوا کہ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کو چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب نئی دہلی میں انڈیا کی آزادی کا اعلان کرنا تھا۔ منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرنا تھا اور خود آزاد انڈیا کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنا تھا۔ مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن تیرہ اگست کو کراچی آئیں اور چودہ اگست کی صبح پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انتقال اقتدار کی کاروائی مکمل کریں اور یہ اعلان کریں کہ اس رات یعنی چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب پاکستان ایک آزاد مملکت بن جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تیرہ اگست کو لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کراچی آئے اور اسی رات کراچی کے گورنر جنرل ہاو¿س میں ان کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا: ”میں ملک معظم کی صحت کا جام تجویز کرتے ہوئے بے حد مسرت محسوس کرتا ہوں۔ یہ ایک نہایت اہم اور منفرد موقع ہے۔ آج انڈیا کے لوگوں کو مکمل اقتدار منتقل ہونے والا ہے اور پندرہ اگست کے مقررہ دن دو آزاد اور خود مختار مملکتیں پاکستان اور انڈیا معرض وجود میں آجائیں گی۔ ملک معظم کی حکومت کے اس فیصلے سے وہ اعلیٰ و ارفع نصب العین حاصل ہو جائے گا جو دولت مشترکہ کے قیام کا واحد مقصد قرار دیا گیا تھا۔“ اگلے روز جمعرات چودہ اگست 1947ءبمطابق چھبیس رمضان المبارک 1366 ہجری کی صبح 9 بجے کراچی کی موجودہ سندھ اسمبلی بلڈنگ میں پہلی دستور ساز اسمبلی کا خصوصی اجلاس شروع ہوا۔

 صبح سے ہی عمارت کے سامنے پرجوش عوام جمع تھے۔ جب پاکستان کے نامزد گورنر جنرل محمد علی جناح اور لارڈ ماو¿نٹ بیٹن ایک مخصوص بگھی میں سوار اسمبلی ہال پہنچے تو عوام نے پرجوش نعروں اور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ اجلاس سے خطاب میں لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے شاہِ برطانیہ کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں قائد اعظمؒ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا ”برطانوی دولت مشترکہ کی اقوام کی صف میں شامل ہونے والی نئی ریاست کے قیام کے عظیم موقع پر میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے جس طرح آزادی حاصل کی ہے وہ ساری دنیا کے حریت پسند عوام کے لئے ایک مثال ہے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ برطانوی دولت مشترکہ کے تمام ارکان جمہوری اصولوں کو سربلند رکھنے میں آپ کا ساتھ دیں گے۔“ اس پیغام کے بعد لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے الوداعی تقریر کی اور پاکستان اور پاکستانی عوام کی سلامتی کے لئے دعا مانگی۔ اپنی اس تقریر میں لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے کہا ”آج میں آپ سے آپ کے وائسرائے کی حیثیت سے خطاب کر رہا ہوں‘ کل نئی ڈومنیئن پاکستان کی حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں ہوگی اور میں آپ کی ہمسایہ ڈومنیئن آف انڈیا کا آئینی سربراہ بنوں گا۔ دونوں حکومتوں کے قائدین نے مجھے جوائنٹ ڈیفنس کونسل کا غیر جانبدار چیئرمین بننے کی دعوت دی ہے‘ یہ میرے لئے اعزاز ہے جس پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔ کل دو نئی خود مختار ریاستیں دولت مشترکہ میں شامل ہوں گی۔ یہ نئی اقوام نہ ہوں گی بلکہ یہ قدیم قابل فخر تمدن کی وارث اقوام ہیں۔ ان مکمل طور پر آزاد ریاستوں کے لیڈر بڑے مدبر ہیں‘ دنیا بھر کی نگاہوں میں احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے شاعروں‘ فلسفہ دانوں‘ سائنس دانوں اور افواج نے انسانیت کی خدمت کے لئے ناقابل فراموش خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان ریاستوں کی حکومتیں ناتجربہ کار اور کمزور نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر میں قیام امن اور ترقی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کی پوری صلاحیتیں رکھتی ہیں۔

“ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے بعد قائد اعظمؒ نے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے شاہ انگلینڈ اور وائسرائے کا شکریہ ادا کیا اور انھیں یقین دلایا کہ ”ہمارا ہمسایوں سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا جذبہ کبھی کم نہ ہوگا اور ہم ساری دنیا کے دوست رہیں گے۔“پندرہ اگست 1947ءکے روز پاکستان کا پہلا گزٹ بھی جاری ہوا جس میں محمد علی جناح کی بطور گورنر جنرل پاکستان مقرر کئے جانے اور اسی دن سے ان کا یہ عہدہ سنبھالنے کی اطلاع درج تھی۔ اسی روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس عبدالرشید نے جناح سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف لیا اور اسی روز نوابزادہ لیاقت علی خان کی قیادت میں پاکستان کی پہلی کابینہ کے ارکان نے بھی اپنے عہدوں کے حلف اٹھا لئے۔ان تمام معروضات اور دستاویزی شہادتوں سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پاکستان چودہ اگست کو نہیں بلکہ پندرہ اگست کو معرض وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کے قیام کے پہلے برس کسی کو اس معاملے میں ابہام نہیں تھا کہ پاکستان کب آزاد ہوا۔ اس بات کو تقویت اس چیز سے بھی ملتی ہے کہ اُنیس دسمبر 1947ءکو پاکستان کے محکمہ داخلہ نے اپنے مراسلے 1948ءکی جن سالانہ تعطیلات کا اعلان کیا ان میں یوم پاکستان کی تعطیل کے آگے پندرہ اگست کی تاریخ درج تھی۔

یہ مراسلہ نیشنل ڈاکیومینٹیشن سنٹر‘ اسلام آباد میں محفوظ ہے۔تو پھر پاکستان کا یوم آزادی پندرہ اگست سے چودہ اگست کب ہوا؟ منگل اُنتیس جون 1948ءکو کراچی میں وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں وزیر خارجہ‘ وزیر مواصلات‘ قانون و محنت‘ وزیر مہاجرین و آباد کاری‘ وزیر خوراک‘ زراعت و صحت اور وزیر داخلہ‘ اطلاعات و نشریات موجود تھے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات پندرہ اگست کی بجائے چودہ اگست کو منائی جائیں۔ وزیراعظم لیاقت علی نے کابینہ کو بتایا کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے اور وہ یہ معاملہ گورنر جنرل کے علم میں لائیں گے اور جو بھی حتمی فیصلہ ہوگا وہ قائد اعظمؒ کی منظوری کے بعد ہوگا اور پھر قائد اعظمؒ نے اِس تجویز کو منظور کر لیا۔ کابینہ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور ملک بھر میں پاکستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات چودہ اگست کو منائی جانے لگیں۔ پاکستان کا یوم آزادی پندرہ اگست ہے۔ اُس دن جمعتہ الوداع تھا اور اسلامی تاریخ کے مطابق ستائیس رمضان المبارک تھی۔ اپنا یوم آزادی پندرہ کی بجائے چودہ اگست قرار دینے سے تاریخ بدلنے کے مرتکب ہونے کے ساتھ ہم جمعتہ الوداع اور ستائیس رمضان المبارک جیسے اعزاز سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر قمر الزماں۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)