دوست ‘دشمن اورقومی مفادات

 اِسرائیل اور متحدہ عرب اَمارات کے مابین معاہدے کے مطابق اِسرائیل مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو اِلحاق کرنے والے اپنے منصوبوں کو ملتوی کرے گا اور دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کا آغاز ہو گا۔ اب تک اسرائیل کے خلیجی عرب ممالک سے سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اس معاہدے کا اعلان خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا مذکورہ معاہدے پر ’فلسطینی رہنما‘ سخت حیران ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے اس معاہدے کے بعد عرب لیگ کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد دیگر خلیجی ممالک کے بھی اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہوں گے اور اس کا اثر ’عرب امن معاہدے‘ پر پڑے گا۔ ایک طرح سے ان کی تشویش بھی جائز ہے۔

یہ پیش رفت خلیجی ممالک‘ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ممالک کے مابین تعلقات کو متاثر کرے گی جن میں بھارت بھی شامل ہے جبکہ اس نئے معاہدے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں پولرائزنگ نظر آرہی ہے۔۔ مجموعی طور پر‘ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اور معاہدے کے بعد سے مسلم ممالک کی قیادت مزید تقسیم ہو جائے گی۔ دوسری طرف ایسے ممالک بھی ہیں جو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اِن میں بھارت پیش پیش رہے گا کیونکہ مشرق وسطیٰ میں علاقائی سلامتی کے حوالے سے اسرائیل اور انڈیا کی سوچ ایک جیسی ہے۔ متحدہ عرب امارات ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے۔ اگر بھارت اور اسرائیل اکٹھا ہوتے ہیں تو بھارت کیجانب سے اِس کا خیرمقدم منطقی ردعمل ہے لیکن کیا بھارت کی قربت سے پاکستان پر کوئی اثر پڑے گا؟پاکستان کے ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں اِسے مسلم ممالک کی نہیں بلکہ مسلم ممالک کو پاکستان کی ضرورت ہے۔

 پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے کا درست فیصلہ کیا جس کے باعث عالمی حالات و واقعات کا اُس پر زیادہ اثر نہیں ہو رہا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ اسلامی ممالک پر پاکستان کا ہمیشہ غلبہ رہا ہے اُور یہ رہے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو تنہا نہیں کر سکتی کیونکہ ایک تو پاکستان جوہری صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرا اِس کا دفاعی نظام پوری مسلم دنیامیں سب سے زیادہ مضبوط اور بیشتر اپنے وسائل پر منحصر ہے۔ تیسرا اسلامی ممالک میں تن تنہا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ جس کی وجہ سے‘ اسلامی ممالک میں اس کا ایک مختلف درجہ ہے چاہے اِسے دنیا تسلیم کرے یا نہ کرے۔ اگر پاکستان کے پاس جوہری صلاحیت نہ ہوتی تو دنیا کب کی بھارت کو عالمی طاقت قرار دے چکی ہوتی لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں پاکستان کی جوہری صلاحیت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا جو زیادہ قوی ہے۔ پاکستان کی نظریںحال سے زیادہ مستقبل پر مرکوز ہیں۔ اس سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان کے ساتھ سمجھا جاتا تھا لیکن کچھ عرصے سے بھارت کے ساتھ اِن ممالک کے تعلقات پاکستان کے مقابلے میں بہتر ہوئے ہیں

 اسرائیل متحدہ عرب امارات معاہدے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’اب جبکہ ’برف‘ پگھل چکی ہے تو مجھے امید ہے کہ کچھ اور عرب مسلم ممالک متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔‘ درحقیقت اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بھی یہی چاہتے ہیں اس وقت اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام ہے اور بنیامین نیتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ان پر رشوت ستانی‘ دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے ساتھ کورونا وبا سے صحیح طریقے سے نہ نمٹنے جیسے الزامات ہیں۔ اِس داخلی صورتحال میں وہ چاہتے ہیں کہ خارجی محاذ پر کامیاب ثابت ہوں اور جتنے زیادہ ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے فلسطینیوں کو الگ تھلگ کرنے کامیاب ہوں کیونکہ صرف اِسی صورت اسرئیل کے لئے مثبت ماحول پیدا کرنا آسان ہوگا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: واسع عظمت۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)