سی پیک:دوسرامرحلہ

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے تین پہلو لائق توجہ ہیں۔ 1: چین پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُس کے پاکستان کے ساتھ کلیدی تعلقات قائم ہیں۔ 2: چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بجلی کے پیداواری اور تعمیرات کے منصوبوں میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور مذکورہ منصوبے پاکستان کی اقتصادیات کے لئے ’حیات نو‘ ثابت ہونے کے علاوہ اقتصادی ترقی کا ذریعہ ہیں اور 3: چین پاکستان کے لئے نجات دہندہ ہے کہ جب دنیا کا کوئی دوسرا ملک کام نہیں آتا وہاں چین آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کرتا ہے ۔سال 2018ءکے اختتام تک ’سی پیک‘ کے چرچے نہ صرف پاکستان کی سیاست میں رہے بلکہ اِس کے مثبت اثرات معیشت پر بھی مرتب ہوتے دیکھے گئے اور یہ دونوں غیرمعمولی رفتار سے ظاہر ہو رہے تھے۔ پانچ اکتوبر 2019ءکے روز ’سی پیک‘ سے متعلق پاکستان میں خصوصی قانون سازی کی گئی۔ مذکورہ قانون کا نام ’پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی آرڈیننس‘ ہے اور اِسے نافذ کیا جا چکا ہے۔ 26نومبر 2019ءکے روز حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ کو ’CPECA‘ کا چیئرمین تعینات کیا‘ جنہوں نے آتے ہی ’سی پیک‘ کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے پیشرفت کی رفتار کو تیز کیا اور اِس منصوبے پر عمل درآمد میں گویا کہ نئی جان ڈال دی۔ جنرل عاصم باجوہ کے بقول ’سی پیک‘ کے تین پہلو ہیں۔ عوام کے لئے سہولیات میں اضافہ‘ مواصلاتی رابطے اور دور افتادہ علاقوں تک خوشحالی پہنچانا۔

پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پشاور سے کراچی تک ریل کی پٹڑی بحال کرے گا ۔ اِس حکمت عملی اور منصوبے کو ”ایم ایل ون “ کا نام دیا گیا ہے اور اِس پر کام کا آغاز ہو چکا ہے ‘وفاق کی جانب سے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ’ایکنیک ‘ نامی ادارہ دیتا ہے جس نے 5 اگست 2020ءکے روز ’ایم ایل ون‘ منصوبے کی منظوری دی۔ ذہن نشین رہے کہ ’ایم ایل ون‘ تکمیل سے نہ صرف پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن ڈبل کی جائے گی بلکہ جدید پٹڑیوں اور آلات کی وجہ سے ممکن ہوگا کہ جو ریل گاڑی اوسطاً 65 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے اُسے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلایا جائے۔ ٹیکنیکل سپورٹ ایگریمنٹ کے مطابق 878کلومیٹر طویل مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لئے معاہدہ 2016ءمیں دستخط کیا گیا۔ 8 اگست 2020ءکے روز ریٹائرڈ جنرل عاصم باجوہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ منصوبے پر 85فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور اِس پر کل لاگت کا تخمینہ 1.6ارب ڈالر ہے‘ جو چین الیکٹرک پاور ایکوپمنٹ اُور اسٹیٹ گرڈ کارپوریشن آف چائنا نامی کمپنیاں مکمل کر رہی ہیں۔چین کی قیادت صرف ’سی پیک‘ ہی نہیں سوچ رہی بلکہ اُس نے ایک نہایت ہی جامع اور وسیع حکمت عملی سوچ رکھی ہے جسے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو ‘ کہا جاتا ہے اور ’سی پیک‘ بھی اِسی ’BRI‘ کا ایک جز ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’BRI‘ حکمت عملی کے تاج میں ’سی پیک‘ تاج میں جڑا ہوا ایک ہیرا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔

 اِسی طرح گودار بندرگاہ کی تعمیروترقی اور فعالیت کو پوری ’سی پیک حکمت عملی میں‘ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ’سی پیک‘ کے تحت گوادر میں کم سے کم نصف درجن بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ 31 جولائی 2020ءکے روز ریٹائرڈ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ 17 ہزار ٹن کھاد سے لدا پہلا بحری جہاز گوادر پہنچا ہے۔ یہ کھاد پاکستان کے راستے افغانستان جائے گی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رشکئی کے اقتصادی علاقے کو عملاً فعال کرنے کے لئے تمام کاغذی کاروائی مکمل کرلی گئی ہے اور یہ ’سی پیک‘ کے تحت بننے والے 9 اقتصادی علاقوں کے قیام کا پہلا قدم ہے۔ رشکئی اقتصادی علاقے کا سنگ بنیاد چین کے صدر ژی جنپنک کے پاکستان دورہ کے موقع پر کرنے کی اُمید ہے۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات اور ایک دوسرے کے بارے میں نکتہ¿ نظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر پاکستان کے مفاد کی عینک سے اپنے خطے پر نگاہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف جنوبی ایشیاءبلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی چین کا اثرورسوخ اور موجودگی بڑھ رہی ہے۔ اقتصادی و سیاسی حالات اور عالمی تعلقات تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں ‘ ایک ایسا دور جس میں ممالک کے درمیان تعلقات اور عالمی منظرنامہ تغیرپذیر ہے پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے سیکورٹی اور اقتصادی مفادات کے بیک وقت تحفظ کو پیش نظر اور مدنظر رکھے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)