سسوشل میڈیا:سیاسی اثرات

 جمہوری اور انتخابی عمل کی شفافیت پر نگاہ رکھنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں عوام کی رائے پر اثرانداز ہونے کے لئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور اِس سلسلے میں بھارت کی ایک مثال بھی دی جا رہی ہے جہاں کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح سوشل میڈیا کا شعبہ قائم کر رکھا ہے تاہم غیرجمہوری بات یہ ہے کہ حکومتی جماعت اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کمپنیوں سے ایسے فوائد بصورت صارفین کے کوائف حاصل کر رہی ہے‘ جن تک دیگر ہم عصر جماعتوں کو رسائی نہیں۔ سوشل میڈیا کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کی مجبوری اُن کا کاروبار ہے اور وہ اِس کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے کسی بھی حکومت سے الجھنا نہیں چاہتے بلکہ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور ماہرین کی نظر میں جمہوریت کے لئے سوشل میڈیا کا یہ پہلو زیادہ تشویشناک و افسوسناک ہے۔بھارت میں ’فیس بک سیاسی تنازعے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکہ کے ایک مو¿قر روزنامے ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق ’فیس بک‘ انتہاءپسند ’آر ایس ایس‘ اور نظریاتی طور پر اس کے قریب سمجھی جانے والی حکمراں جماعت ’بی جے پی‘ کی مدد کر رہا ہے جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے خاموش نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس معاملے پر جارحانہ رخ اختیار کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فیس بک کے کچھ موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے اخباری رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے بی جے پی قائدین اور کارکنوں کی نفرت انگیز پوسٹس اور فرقہ وارانہ مواد کو نظرانداز کیا ہے۔

 خیال رہے کہ فیس بک کے پاس ہی واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا بھی مالکانہ حق ہے اور غیرجانبداری کے حوالے سے فیس بک کے دعوو¿ں پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وال سٹریٹ جرنل کی جانب سے فیس بک پر لگائے جانے والے الزامات کی وجہ سے اس کے غیر جانبداری مشکوک ہو چکی ہے اور ان الزامات کی وجہ سے فیس بک پر 2014ءاور 2019ءکی انتخابی مہمات کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے جبکہ مذکورہ دونوں انتخابات میں بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ بھارت میں انتخابات کے نتائج سے چھیڑچھاڑ صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں تاہم اِس میں فیس بک اور واٹس ایپ کے اضافے نے صورتحال کو سنگین بنا دیا ہے اور وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ نے بھارت میں فیس بک کے کردار کے بارے میں صرف پہلے سے پائی جانے والی تشویش کی گویا تصدیق کی ہے۔بھارت میں فیس بک کے چالیس کروڑ صارفین اور 90 کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ ملک میں انتخابات سے پہلے‘ اس کے بعد اور اس کے دوران اس پلیٹ فارم کے غلط استعمال کی اجازت دی۔ لوگوں نے کسے ووٹ دیا اور کیسے ووٹ ڈالا یقینی طور پر ان کا بڑا اثر پڑا ہے۔ مختصر یہ کہ آج جس طرح سے فیس بک اور واٹس ایپ کام کر رہے ہیں اس سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں جمہوریت کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

 ناقدین کا کہنا ہے کہ فیس بک مختلف ممالک کے لئے مختلف قسم کے رہنما اصول بناتا ہے حالانکہ اِس کے قواعد اور صارفین کے کوائف کی حفاظت سے متعلق قواعد و اصول ایک جیسے اور سخت ہونے چاہئیں۔ فیس بک مغربی ممالک کے مقابلے ترقی پذیر ممالک کی حکمراں جماعتوں کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے لیکن جہاں سے اس کا صدر مقام ہے وہاں یعنی امریکہ میں وہ خود کو سیاست سے دور کئے ہوئے ہے اور یہ فیس بک کا دہرا رویہ ہے۔ بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت ’کانگریس‘ کے سرکردہ رہنما ’راہول گاندھی‘ نے بھی مودی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ فیس بک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کررہی ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے اپنے اس الزام کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے لیکن بی جے پی اِس کی تردید کرتی ہے اور امریکہ میں اپنے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں فیس بک نے اِن الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”فیس بک نفرت انگیز تقریر اور مواد کو روکتی ہے جو تشدد کو بھڑکاتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہی ہماری پالیسی ہے۔ ہم کسی بھی سیاسی پارٹی کے حامی نہیں ہیں اور نہ ہی اس سے ہماری کوئی وابستگی ہے۔“ تاہم فیس بک نے اعتراف کیا ہے کہ ایسے معاملات سے بچنے کے لئے ابھی مزید بہت کام کرنا پڑے گا۔

 کمپنی کے بیان میں کہا گیا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ اس سمت میں اب بھی کچھ اور اقدامات کئے جانے ہیں لیکن ہم اپنے عمل کے مستقل آڈٹ اور انہیں نافذ کرنے کی سمت میں گامزن ہیں تاکہ ہماری غیرجانبداری اور درستگی پر حرف نہ آئے۔‘ اخبار وال سٹریٹ جرنل نے فیس بک کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر اس پلیٹ فارم نے بی جے پی کارکنوں کے خلاف نفرت انگیز پوسٹس یا دیگر قوانین کی خلاف ورزی پر اقدامات کئے ہوتے تو ملک میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو زک پہنچتی۔ برطانیہ میں ہیومن رائٹس کمیٹی کے چیئرمین ہریئٹ ہرمن کا کہنا ہے کہ ”عام طور پر اراکین پارلیمان یہ نظریہ شدت کے ساتھ تسلیم کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا جو کچھ بھی کر رہا ہے اس سے جمہوریت کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان زیادہ ہو رہا ہے اور حقیقت میں سوشل میڈیا جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ ایسے بہت سے معاملات کے بعد اپنے کام کو بہتر بنانے کے لئے فیس بک اور واٹس ایپ پر دباو¿ بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: وقار اجمل۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)