نجی بجلی گھرمعاہدہ

 حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھروں کے درمیان معاہدے میں بجلی کی قیمت کم کرنے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ نجی بجلی گھر (آئی پی پیز) اپنے واجبات اور وصولیاں امریکی ڈالر میں کرتے تھے جبکہ اب پاکستانی روپے میں کرنے کے علاوہ بجلی کی قیمت بھی کم کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں دستیاب معلومات کے مطابق دو الگ الگ معاہدے ہوئے ہیں۔ ایک معاہدہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے ساتھ اور دوسرا تیل سے بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہوا ہے اور اِس بارے میں ماہرین و تجزیہ کاروں کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ونڈ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کی بڑی شقوں میں شامل ہے کہ قرض کی مدت میں پانچ سال کی توسیع کی جائے گی اور بجلی کی قیمت کم ہو گی اِس کے علاوہ دیگر اخراجات میں بھی بیس سے پچیس فیصد کمی واقع کی جائے گی۔ دیکھا گیا ہے کہ نجی بجلی گھروں کا انشورنس پریمیم آپریشنل سالوں میں کم ہوا ہے۔ تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں سود کی شرح کم کی جائے گی۔ تعمیراتی کام کے دوران ایکویٹی پر ریٹرن تیرہ فیصد ہو گا۔ غیر ملکی ایکویٹی پر کل سرمایہ کاری پر بارہ فیصد اور سترہ فیصد لوکل ایکویٹی ہو گی البتہ اِس بارے کچھ الجھن موجود ہے۔ اہم اصلاحات مین فنانسنگ‘ آر او ای اور سود کی شرح میں کمی شامل ہیں۔ تمام اخراجات کا ان دو مالیاتی پیرامیٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے تعین کیا گیا ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق ممکنہ طور پر آر او اِی میں تین فیصد کمی واقع ہو گی۔ تاہم طے شدہ معاہدے میں ایسی کسی کمی کا ذکر نہیں ہے۔

 اگر واقعتا یہ معاملہ ہے تو پھر اِسے حکومت کی اہم کامیابی سمجھا جاسکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے بارہ فیصد اور مقامی کرنسی کے جزو کو شامل کرنے کے لئے بات چیت کی گئی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ممکنہ طور پر لاگو ہوگا یا یہ ایک عام پالیسی ہوگی جبکہ موجودہ پالیسی کی شرح قابل تجدید ذرائع کے لئے سترہ فیصد اور دیگر تمام لوگوں کے لئے پندرہ فیصد ہے۔ مقامی یا غیر ملکی کرنسی کا کوئی امتیاز نہیں اور یہ کہ سب کو امریکی ڈالر میں معاوضہ ملتا ہے۔ مقامی کرنسی کے منصوبوں اجزا نے امریکی ڈالر کے ساتھ اشاریہ کو کھو دیا جو واقعی میں غیر معقول تھا لیکن اس سے زیادہ ’آر ای او‘ ملا جو روپے کی گراوٹ سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ حکومت نے دو اہم مراعات کی پیش کش کی ہے۔ اور ڈبلیو پی پیز سے زیادہ توانائی اٹھانا جو دوسری صورت میں ضائع ہو رہی تھی۔ موجودہ پلانٹوں پر ونڈ پاور کے عام ٹیرف کا اطلاق۔ اپریل تا جون 2020ئ‘ کل ٹیرف 26.39 روپے فی کلو واٹ ہے جبکہ بجلی کی نئی قیمت خرید چھ روپے ہے۔ واقعی‘ ونڈ پاور کی قیمت اور ٹیرف بین الاقوامی سطح سے بہت زیادہ تھے اور حال ہی میں وہ نیچے آئے ہیں اور نئے اور پرانے نرخوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف‘ 2013ءکی قیمتوں کے تحت نرخ غیر مناسب طور پر زیادہ تھا۔ پاکستان میں ماضی کی حکومت نے بجلی خریدنے کے جو معاہدے کئے وہ عالمی مارکیٹ میں بجلی کی قیمت خرید سے ساٹھ تا سو فیصد زیادہ تھے۔ اِن اضافی نرخوں کے خلاف احتجاج بھی دیکھنے میں آیا لیکن نیپرا اور دیگر متعلقہ حکام نے اِس پر توجہ نہیں دی کیونکہ کوئی بھی ادارہ حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سیاسی حکومتیں جب اداروں میں من پسند افراد کو تعینات کرتی ہیں اور اُن کی اہلیت نہیں بلکہ وفاداری دیکھی جاتی ہے۔

 تو پھر قومی مفادات کا تحفظ کرنے جیسی ترجیح نہیں رہتی اور اداروں کے سربراہوں کے منہ میں زبان بھی نہیں ہوتی۔ سال 2013ءمیں نیپرا سے ملنے والی ونڈ پاور کے نرخ ساڑھے تیرہ روپے تھا جب کہ ترکی میں سات‘ امریکہ میں سات‘ بھارت میں آٹھ اور جنوبی امریکی ممالک میں چھ تھا۔ اسی طرح نیپرا جس بنیاد پر محصولات کا حساب کتاب کرتا تھا وہ غیر معقول حد تک زیادہ تھا۔ آخر بجلی کے نرخ اتنے زیادہ کیوں رکھے گئے؟ ظاہر ہے کہ نیپرا ایک ریگولیٹر ہے اور اس نے اس کے برخلاف مشورہ دیا ہو گا لیکن حکومت نے نہیں سنی۔ یہاں قصوروار نیپرا ہے جس کے فیصلہ ساز اگر انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے دیگر ممالک میں نجی بجلی گھروں کی قیمتوں کو دیکھتے تو علاقائی ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکہ سے حیران کن اعدادوشمار ملتے جہاں فی یونٹ بجلی کی قیمت کم ہے۔ بھلا حکومت مہنگی بجلی خرید کر عوام کو کب تک سستی بجلی فراہم کر سکتی ہے۔ قواعد کے مطابق ’اپیلٹ ٹریبونل‘ قائم کیا جاتا ہے لیکن تاحال ایسا کوئی بھی ٹریبونل فعال نہیں ہوسکا۔ اب جبکہ مشترکہ وزارت توانائی موجود ہے تو اپیلٹ ٹریبونل کا دائرہ اختیار تیل و گیس کے شعبوں تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اظہر من الشمس ہے کہ ’کراچی الیکٹرک‘ کس طرح قانونی نظام کے ساتھ کھیل رہا ہے اور نیپرا کے فیصلوں کے خلاف کام کرتا ہے۔

 عدالتیں مقدمات کی سماعت اور فیصلہ سنانے میں بہت وقت لگاتی ہیں اور یوں نجی بجلی گھر ملنے والی مہلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اربوں روپے اضافی منافع کما لیتے ہیں۔ فی الوقت بہت ساری ریگولیٹری اصلاحات کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی سماعتوں کو زیادہ اہمیت دینا ہو گی اور اِسے معنی خیز بنانا ہوگا۔ عام طور پر‘ سرمایہ کار اچھی نمائندگی کرتے ہیں لیکن صارفین کی جانب سے مناسب نمائندگی دیکھنے میں نہیں آتی‘پاکستان میں جن نجی ذرائع سے بجلی حاصل ہوتی ہے اُس میں ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی مقدار کم یعنی قریب ایک ہزار میگاواٹ ہے اگر یہ مقدار زیادہ ہوتی تو مالی خسارہ مزید زیادہ ہوتا کیونکہ اِس نظام سے حاصل ہونے والی بجلی فی یونٹ چھبیس روپے سے زیادہ کے علاوہ دیگر نقصانات ترسیلی نظام اور تقسیم کی لاگت کے بعد تیس روپے فی یونٹ سے بڑھ جاتا ہے جبکہ بجلی کی اوسط قیمت فروخت سولہ روپے فی یونٹ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت آخری حد تک قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے اور ہر ممکن حد سے زیادہ توانائی کے نرخوں کو کم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ اب یہ نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کے عین مفاد میں ہوگا کہ وہ متفقہ شرائط کو قبول کریں اور پاکستان کے غریب عوام پر رحم کھائیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد اختر علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)