سیاسی تماشا

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اور کردار کسی کھیل تماشے کی طرح ہیں کہ اِن میں افسانے کا عمل دخل زیادہ ہے اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ اِس افسانے اور کرداروں کو الگ کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اور اس بات کی مسلسل قیاس آرائیاں کی جارہی ہے کہ واقعات قدرتی طور پر تیار ہونے کی بجائے ترتیب دیئے جاتے ہیں جبکہ جمہوریت ایک مختلف طرز عمل چاہتی ہے۔ یہ بات صرف اور صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ امریکہ میں‘ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اکثر ہمارے ہی حکمرانوں کی طرح خبروں میں رہتی ہے اور وہاں بھی ہر روز جمہوریت کے نام پر نت نئے ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں اور اس طرح کا ڈرامہ غیر معمولی نہیں ہے۔ امریکہ میں پچھلے کچھ مہینوں میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو انتخابات سے قبل عموماً ہوتا ہے۔ وہاں صدراتی انتخابات رواں برس نومبر میں ہونے ہیں اور نومبر زیادہ دور نہیں۔ درحقیقت سیاست کا ایک خوفناک پہلو انتخابات ہیں‘ جن کے قریب آتے ہی سیاست کا حقیقی بے رحم چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان کے سٹیج پر رونما ہونے والے سیاسی واقعات تسلی بخش نہیں۔ ایک کے بعد ایک قابل مذمت مثال موجود ہے۔ جس میں تازہ ترین واقعہ لاہور کے احتساب دفاتر کے باہر دیکھنے میں آیا جہاں مسلم لیگ (نواز) کی رہنما مریم صفدر کے ہمراہ آئے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پولیس کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور دوسری بات یہ ہے لیگی قیادت کو اپنے ساتھ کارکن لانے کی کیا ضرورت تھی کہ اُنہوں نے نیب کی جانب سے طلبی کا سیاسی جواب دیا ہے حالانکہ اُن سے سیاسی سوال نہیں ہو رہا۔ جب ہم کسی سیاست دان سے یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کے اثاثے آمدن سے زیادہ کیوں ہیں تو وہ اگلے ہی لمحے یہ بیان داغ دیتا ہے کہ حکومت سیاسی انتقام لے رہی ہے سب کچھ (تماشا) کیا جاتا ہے۔

 لیکن اُس سوال کا سیدھا سادا جواب نہیں دیا جاتا جو اُن سے پوچھا گیا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست الزامات کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ کوئی بھی دور حکومت ہو‘ اِس میں مخالفین پر الزامات لگائے جاتے ہیں اور یہ دوطرفہ سلسلہ پورے زور و شور سے اُن ماہرین کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو اِسے پھیلانے کا ہنر جانتے ہیںاور ہر سیاسی جماعت کا دفاع اور مخالفت کرنے والے کردار ملیں گے جنہیں حاصل خاص مہارت اُنہیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ اِس پوری صورتحال سے عام آدمی کی پریشانی منطقی ہے کیونکہ اُسے سمجھ نہیں آ رہا ہوتاکہ وہ کس کا یقین کرے۔ قانون ساز ایوان (پارلیمنٹ) کے اندر بھی صورتحال زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں حزب اختلاف کے اکثر واک آو¿ٹ کے ساتھ اپنا احتجاج ظاہر کرتی ہے اور یہ بھی ایک طرح کا ڈرامہ ہے کہ پارلیمان کو جمہوری ادارہ سمجھنے والے اور اِس جمہوریت کے دفاع میں گھنٹوں بولنے والے جب اِس طرح واک آو¿ٹ کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت وہ پارلیمان کے وقار کو مجروح کرتے ہیں اور اِس حقیقت کو عمل سے بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں پارلیمان کی طاقت پر یقین نہیں۔ عموماً پارلیمینٹ سے واک آو¿ٹ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے جس میں ایک فریق کو کھل کر اظہار خیال کا موقع دیا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اِس طرح کا نادر موقع فراہم کرنے کے بدلے حکومت سے مراعات لیتی ہیں۔ قائمہ کمیٹیوں میں حصہ داری سے متعلق سودے بازی ہوتی ہے۔ قوانین اور قواعد کو منظور کرنے میں بھی ایک دوسرے کے مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب کا نام لینے والی تحریک انصاف حکومت نے اپنے دو سال مکمل کر لئے ہیں۔

لیکن اِس دوران کوئی ایک بھی ایسا قانون منظور نہیں کیا‘ جس سے اراکین اسمبلی نے ایک دوسرے کے مفادات پر ضرب لگائی ہو۔ یوں ایک ایسا بندوبست دیکھنے میں آ رہا ہے جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا لیکن حزب اختلاف سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتی تاکہ بعد میں یہ کہہ سکے کہ جو کچھ کہنا ہے تحریک انصاف کو کہیے۔ پارلیمان میں قومی داخلہ اور خارجہ امور سے متعلق بات ہونی چاہئے لیکن سیاسی تعلقات جیسے امور کے بارے میں حکومت کے سینئر اراکین نے بھی ایوان کے اندر اور باہر بہت ہی کم سوچ کے ساتھ بات کی ہے۔ متعدد امور جیسے اعدادوشمار حکومت کے اپنے ہی اعدادوشمار سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا وائرس وبائی مرض نے عوام کو الجھنوں میں مبتلا کر رکھا ہے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے میں بھی آسانی پیدا کردی ہے کہ حکومت عوام تک کیا پیغام پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت غیر یقینی سے دوچار ہے اور ایسی صورت میں افہام و تفہیم سے مدد نہیں ملتی۔حکومت کے جن اقدامات کی سمجھ نہیں آتی اُن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سیاحت کے مقامات کھولے گئے ہیں اور ساتھ ہی یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ سیاح کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ پیش کریں گے حالانکہ یہ ممکن نہیں کہ اوسطاً چھ افراد پر مشتمل کوئی سیاحت پر نکلنے سے پہلے لاکھوں روپے اپنے کورونا ٹیسٹوں پر خرچ کرے۔

 اتنا تو اُن کا کل بجٹ نہیں ہوگا۔ جب حکومت بنا سوچے سمجھے بیانات دیتی ہے تو اِس سے قانون شکنی پیدا ہوتی ہے اور ایک مرتبہ قانون شکنی کا عادی ہونے والے کے لئے دیگر قوانین و قواعد کو توڑنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ احتساب کے عمل کو جامع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کوئی اثر رسوخ بھی منشیات کے ساتھ مبینہ طور پر پکڑا جائے تو پھر اُس کی عام آدمی کی طرح ضمانت نہ ہو اور اُسے ساری زندگی جیل کی ہوا کھانی پڑے۔عدالتوں اور نیب کے سامنے ڈرامہ الگ معاملہ ہے۔ ادارے اپنے اختیارات اور سیاست دان اپنے مینڈیٹ کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو اِس سے ملک و قوم دونوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں کسی بھی طرح کے سیاسی تھیٹر (کھیل تماشے) کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی بجائے مستحکم‘ قابل اعتماد طرز حکمرانی چاہئے جو ہمارے تمام رہنماو¿ں کی طرف سے اپنائے گئے ایک پختہ انداز اور باشعور طرزعمل کا عکاس ہونا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)