رواں برس فروری سے ’کورونا وبا (کوویڈ19)‘ سے متاثرہ اَفراد کی تعداد میں اِضافہ ہو رہا ہے اور کئی ممالک میں یہ صورتحال ’افراتفری‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ دنیا کو کوئی دوسرا راستہ نہیں مل رہا لیکن کورونا سے بچنے کے لئے احتیاط اور سماجی دوری پر مبنی ’لاک ڈاو¿ن‘ کا راستہ اختیار کیا گیا ہے جس نے وبا کے ساتھ ایک اور یکساں بڑی مشکل کو ظاہرکیا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ماسوائے لاک ڈاو¿ن دوسری کوئی صورت نہیں رہی کیونکہ دنیا کو بہرحال زندہ رہنا ہے اور زندگی کو بچانا ہی پہلی ترجیح ہے۔ اِس صورتحال میں علاج دریافت کرنے والوں پر دباو¿ اپنی جگہ ہے اور اِنسانوں کو کسی بیماری کا علاج دریافت کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت اپنی جگہ بے چینی کے احساس کو گہرا کر رہی ہے۔ لوگوں کی پریشانیوں اور بے چینی میں اضافے سے ناواقفیت کا خوف تھا کیونکہ حکومتیں اس لعنت کی عجیب حرکیات کو سمجھنے اور وائرس کا پھیلاو¿ کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ جانوں کو بچانے کی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہو گئیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور عوامی جمہوریہ چین جیسے ممالک کی قیادت نے کوویڈ 19 کو ایک دوسرے پر تنقید کے حملوں کے لئے استعمال کیا جبکہ دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی تعاون کے ذریعے ایک ایسی پریشانی کا خاتمہ ممکن ہو سکے جس نے مستقل ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ کورونا وبا سے متاثر ہونے کے خطرے کو کم کرنے کے لئے تحقیق کے عمل کو سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھانے کا عمل اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک سیاسی فیصلہ ساز اتحاد و اتفاق جیسے نکتے پر متفق نہیں ہو جاتے اور ایک مشترکہ بیانیہ تشکیل و ترتیب نہیں دے دیا جاتا۔منفی محرکات صحت عامہ کے نظام پر حاوی ہیں۔ تالے بندیوں (لاک ڈاو¿ن) کے معاشی نقصانات و اثرات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں جس نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو شدید متاثر کیا ہے اور وہ خاندان جن کے لئے پہلے ہی گزربسر آسان نہیں تھی لاک ڈاو¿ن اور اِس کے بعد کاروباری سرگرمیوں کے معمول نہ آنے کے باعث خط غربت سے نیچے پھسل گئے ہیں۔
لاک ڈاو¿ن کے تحت زندگی بسر کرنے کے تجربے نے جس طرح سے ہماری زندگی کو منظم کیا ہے اس میں کچھ سنگین غلطیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کام کاج اور کاروباری معمولات عدم توازن سے دوچار ہیں اور ایسے تصورات دیئے ہیں جن کا اِس سے قبل کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ماہر نفسیات اپنی جگہ خبردار کر رہے ہیں کہ لاک ڈاو¿ن کے سبب نفسیاتی مسائل اور الجھنیں بڑھی ہیں۔ گھریلو تشدد اور شدید ذہنی دباو¿ کے واقعات بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں جن کے نتیجے میں طلاق اور یہاں تک کہ خودکشیوں کی شرح بھی زیادہ ہوگئی ہے‘ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِنسانی معاشروں میں جہاں پہلے ہی ذہنی صحت کو کم ترین ترجیح اور اہمیت دی جاتی تھی‘ وہ کورونا وبا نے اِس کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ نفسیاتی صحت سے متعلق بات چیت کرنا بھی پسند نہیں کیا جاتا اور اِن حالات کو معمول پر نہیں لایا جا سکا ہے‘ جو ہماری اجتماعی فلاح و بہبود کے لئے اتنی ہی اہم حیثیت رکھتا ہے اور جسمانی تندرستی کی طرح کسی انسان کا نفسیاتی طورپر بھی صحت مند ہونا بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔کورونا وبا نے انسانی معاشروں میں مادی ترقی کی ناپائیداری و ناہمواری کو بھی بے نقاب کیا ہے‘ جس پر انسانیت بے حد فخر کیا کرتی ہے۔ عذاب کا باعث بننے والے اعمال سے باز آنا دنیا کو کمزور اور فطرت کی قوتوں کو حاوی ہونے کا موقع (جواز) فراہم کرتی ہیں۔ ایک ہی دھچکے میں کورونا کے وبائی مرض نے دنیا کو کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا ہے اور بہت سارے ممالک کی ترقی کا عمل رکنے کے علاوہ ایسے ممالک بھی ہیں جنہیں اِس وبا نے کم سے کم ایک دہائی پیچھے دھکیل دیا ہے۔کورونا وبا نے انسانیت کو درپیش مشترکہ چیلنجوں کا خاکہ پیش کرکے برابری کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ بین الاقوامی برادری نے ترقی کے مختلف مراحل طے کئے لیکن کورونا کے بعد کے دور میں ہمارے ” ترقی“ اور ” ترقی“ کے نظریات کی ایک سیدھی سی عکاسی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
سرمایہ داریت کی زیرقیادت اور صارفیت پر مبنی معاشی ماڈل نے وبائی مرض کے ذریعہ درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے جذبے اور اخلاقیات کی کمی کو محسوس کیا ہے۔ یہ صورتحال نئی نسل کو درپیش ایک زیادہ سے زیادہ پریشانیوں کی عکاس ہے جو تنہائی کا مقابلہ کرنے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے جذبات اور حکمت سے بھرپور فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ آرٹسٹ اگنس مارٹن نے اپنے ایک دن کے بارے میں لکھا ہے کہ ”جب آپ اکیلے ہوتے ہو تو زندگی کی بہترین چیزیں آپ کے ساتھ ہوتی ہیں۔“ زرخیز تنہائی کے لئے قناعت پسندی کو بطور مقدمہ پیش کرتے ہوئے شاعر الزبتھ بشپ نے سفارش کی کہ لوگوں کو کم و بیش ایک طویل عرصے تک تنہائی کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے اندر کی آوازوں کو سن سکیں اور یہ عمل لوگوں کو عملی زندگی میں بہت ساری مشکلات کا جواب دینے کے قابل بناتا ہے۔ موجودہ عصری حالات میں بے چینی اور نفسیاتی بدحالی عام ہے جس نے ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی ضابطے کی ناکامیوں کو ظاہر کیا ہے جو ہمیں خوشی اور اطمینان کی زندگی کے لئے تیار نہیں کرتی۔ خوشی کے ہمارے خیالات اکثر مادی کامیابیوں‘ اعلی تنخواہوں‘ بہتر تعلیمی گریڈ اور روشن مستقبل کے لحاظ سے بیان کئے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں حیرت کی بات نہیں کہ ہم خوشی خوشی اپنے ” توقعات کا بوجھ “ اپنے بچوں کو منتقل کر دیں اور اُنہیں بھی مادہ پرستی کا عادی بنا دیں۔ بچوں کے تخیل کی تربیت بھی یکساں اہم ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ ترقی کرنے اور سکون پانے کا ہنر سیکھ سکیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: امانت علی چودہری۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)