اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے سے مشرق وسطی کے سیاسی و غیرسیاسی حالات میں غیرمعمولی تبدیلیاں آئیں گی جن کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ بنیادی بات یہ ہے کہ نہ صرف اِس خطے کے عرب ممالک کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ مذکورہ معاہدے سے خطے کے چند دیگر ممالک کے لئے بھی چیلنجز پیدا ہوئے ہیں جن میں ایران‘ پاکستان اور ترکی شامل ہیں۔ اگرچہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے یا تعاون یا سفارتی تعلقات کے بارے میں نکتہ¿ نظر شروع دن سے واضح ہے اور ایران کی قیادت اسرائیل کے خلاف کسی بھی مصلحت کا شکار نہیں اور دنیا کے ہر اُس ملک سے بھی فاصلہ رکھتی ہے جو اسرائیل سے قربت رکھتا ہو لیکن مسئلہ پاکستان کا ہے‘ جس کے لئے متحدہ عرب امارات سے الگ ہونا اور اُس کا ساتھ دینا یا حمایت کا فیصلہ آسان نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ 13 اگست کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ معاہدہ کرنے والے ممالک نے نہیں بلکہ تیسرے فریق یعنی امریکہ نے مذکورہ معاہدے کا اعلان کیا‘ جس سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اِس معاہدے کو عملاً ممکن بنانے کے لئے امریکہ نے کس قدر کوششیں کی ہوں گی اور اپنا اثرورسوخ کس قدر استعمال کیا ہوگا۔ اسرائیل کے لئے امریکہ کی یہ کوششیں اور دلچسپی پہلی مرتبہ ظاہر نہیں ہوئیں بلکہ وہ اسرائیل کے ساتھ شروع دن سے کھڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان ممالک کی اکثریت اسرائیل کی حمایت یا مخالفت میں سخت گیر مو¿قف اختیار نہیں کرتے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ میں جب بھی صدراتی انتخابات قریب آتے ہیں‘ تو وہاں کی سیاسی قیادت اسرائیل کی حمایت اور اِس کے ناجائز وجود کی حمایت زور و شور سے کرنے لگتی ہے تاکہ امریکہ کے ووٹروں کی توجہ اور صیہونی لابی کی حمایت حاصل کر سکے جنہوں نے امریکہ کے کاروبار اور قومی فیصلہ سازی کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔اِسرائیل اور متحدہ عرب اَمارات کے درمیان معاہدے کا متنازعہ نکتہ یہ ہے کہ دونوں ممالک سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اُس کے ہمسائے میں اسرائیل کے کردار کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی تو اِس سے سنجیدہ نتائج برآمد ہوں گے لیکن متحدہ عرب امارات پر اِن باتوں کو کچھ اثر نہیں ہو رہا اور ان کی قیادت اسرائیل سے اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات کے آغاز سے پراُمید ہے کہ اِس سے خطے میں جنگ کی بجائے قیام امن کی راہ ہموار ہوگی۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی و تجارتی تعلقات کے قیام کا اصل ہدف امریکہ کے صدراتی انتخابات اور صدر ٹرمپ کی حکمت عملی ہے‘ جو اپنی جگہ کامیاب ہوئے ہیں اور یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے صدر ٹرمپ کو داخلی سطح پر جس تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اُس میں بھی کمی آئے گی کیونکہ توجہ ایک اور معاملے کی طرف مبذول کر دی گئی ہے۔ امریکہ کے انتخابات میں صیہونیوں کے اثرورسوخ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہر مرتبہ کی طرح اِس دفعہ بھی فائدہ اُٹھایا جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ معاہدے کا اعلان تل ابیب یا ابوظہبی کی طرف سے نہیں بلکہ واشنگٹن کی جانب سے ہوا۔ ۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)