بھارت چین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی جرا¿ت کر سکتا ہے یا نہیں‘ اِس بارے میں جاری بحث میں نئی جان بھارتی فوج کے سربراہ (چیف آف ڈیفنس سٹاف) جنرل بپن راوت کے ایک بیان سے پڑ گئی ہے جنہوں نے چوبیس اگست کو اکتیس الفاظ پر مبنی اپنے تبصرے میں کہا تھا ”لداخ میں چینی فوج کے تجاوزات سے نمٹنے کےلئے فوجی آپشن موجود ہے جسے اُس وقت اختیار کیا جائے گا جب فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات ناکام ہو جائیں گے۔“ دفاعی سروسز میں شامل سابق فوجیوں میں سے شاید ہی کسی نے ان کے اس بیان پر تعجب کا اظہار کیا ہو۔ تجزیہ کاروں کے بقول کوئی فوجی آپشن نہ ہونا زیرتوجہ نہیں بلکہ مذکورہ بیان میں صرف حقائق بیان کئے گئے ہیں اور اس میں کچھ غلط نہیں بلکہ یہ ایک نپا تلا بیان تھا جو بہت پہلے آنا چاہئے تھا تاہم جنرل راوت کے بیان کے مضمرات نکالنے سے پہلے چین کی حکمت عملی اور ترجیحات مدنظر رکھنی چاہئیں۔ چین کی زمینی سرحد بائیس ہزار کلومیٹر اور ساحلی سرحد اٹھارہ ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے علاوہ جبوتی سمیت اس نے بیرونی ممالک میں اپنا بنیادی ڈھانچہ تیار کر رکھا ہے۔ بھارت میں جہاں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ دفاعی فورسز کو علیحدہ طور پر کنٹرول کرتی ہیں وہاں چین میں ایک سنٹرل ملٹری کمیشن ہے‘ جو فوج کا اہم حصہ اور اپنے فوجی دستوں کا کمانڈر کہا جاتا ہے اور اس کی سربراہی چیئرمین اور وائس چیئرمین کرتے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ اِس کمیشن کے چیئرمین ہیں جو چین میں ہر فوجی ادارے کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان میں پیپلز لبریشن آرمی ‘ پی ایل اے نیوی‘ پی ایل اے ائر فورس‘ پی ایل اے راکٹ فورس ‘ پی ایل اے سٹریٹجک سپورٹ فورس اور پی ایل اے جائنٹ لاجسٹک سپورٹ فورس شامل ہیں۔
بھارت میں جہاں ہر فوج کی اپنی کمان ہے وہیں چینی فوج کے پاس جغرافیائی طور پر پانچ مختلف تھیئٹر آف کمانڈ ہیں۔ ان میں مشرقی‘ جنوبی‘ مغربی‘ شمالی اور مرکزی کمانڈ سنٹرز شامل ہیں۔ سال 2019ءمیں سکیورٹی سے متعلق جاری تفصیلات میں چین کی قومی وزارت دفاع نے 2012ءسے ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ”مشترکہ فورسز نے اپنی صلاحیت میں 3 لاکھ اہلکاروں کی کمی کی جبکہ متحرک جوانوں کی تعداد بیس لاکھ ہے۔“ بحریہ میں اگر تعداد کم کی گئی ہے لیکن فضائیہ نے اپنے فوجیوں کی تعداد برقرار رکھی۔ اسی دوران بحریہ اور پی ایل اے آر ایف میں جوانوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ پی ایل اے آر ایف کے پاس چین کے جوہری اور روایتی میزائلوں کا ذخیرہ ہے‘ جسے قبل ازیں ”دوسری توپ خانہ فورس“ کہا جاتا تھا۔ سال 2012ءسے چین کی فوج پر کافی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ یہ رقم اچھی تنخواہوں‘ فوجیوں کی تربیت اور ان کے لئے بہتر کام کاج کے ماحول‘ پرانے ہتھیاروں کو خرید کر نیا اسلحہ بنانے‘ فوجی اصلاحات اور مختلف سکیورٹی فورسز کے درمیان ہم آہنگی پر خرچ کی گئی ہے اگرچہ بہت سے دفاعی امور کے ماہرین کو چین کے ان دعوو¿ں پر شکوک وشبہات ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ چینی کی تکنیکی مہارت ’غیر مصدقہ‘ ہے اور اُس کی افواج کو ’جنگ کا زیادہ عملی تجربہ‘ بھی نہیں۔بھارت قریب ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل لائن آف ایکچول کنٹرول پر مشغول ہے‘ جو بہت بڑا علاقہ ہے اور اِس میں خود سے دفاعی طور پر بہتر دشمن سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ چین سے متعلق بھارت کی فوجی حکمت عملی پاکستان کے مقابلے بالکل مختلف ہے۔
پاکستان کے بارے میں بھارت جارحانہ ہے اور مختلف معاملوں میں دھمکیاں دیتا رہتا ہے لیکن بھارت جانتا ہے کہ چین کو دھمکی کا مطلب کیا ہوگا اور اصل بات یہ ہے کہ بھارت چین کے ساتھ جنگ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بھارت چین پر حملہ تو کر سکتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ پھر اِس کے بعد معاملات اُس کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے اور وہ چین کو پیشقدمی سے روک نہیں سکے گا اور رہا سہا علاقہ بھی اُس کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔بھارت ’جیسے کو تیسا‘ والی حکمت عملی اختیار نہیں کرسکتا جبکہ اُس کے پاس اسلحہ اور فوجی اہلکاروں کی تعداد کے لحاظ سے وسائل موجود ہیں۔ مشرقی لداخ کا علاقہ کافی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کے ساتھ ایل او سی کی طرح پہاڑی نہیں ہے۔ لداخ میں روڈ نیٹ ورک بھی اچھا ہے‘ زیادہ تر فوجی چوکیوں پر گاڑیوں کے ذریعہ نقل و حرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ لداخ کا جغرافیائی محل وقوع بھارت کے حق میں ہے کیونکہ وہاں چین کا بنیادی ڈھانچہ بہت بہتر ہے اور اس کی وجہ سے اُسے بھارت پر برتری ملتی ہے اگر چین کے ساتھ سمندری خطے (بحر ہند) میں صورتحال خراب ہوتی ہے تو بھی یہ بھارت کے اچھا نہیں ہوگا لیکن چین کبھی بھی بحر ہند کی جانب سے حملہ آور نہیں ہوگا کیونکہ وہاں کے راستوں اُور موسموں کو بھارت زیادہ بہتر جانتا ہے۔ بھارت کے پاس فوجی آپشن کے طور پر چین کے خلاف صرف فضائیہ کا استعمال ہی سودمند ہو سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارتی ہوائی جہازوں کے ائر بیس سے کم اونچائی پر پرواز کرنے کی وجہ سے زیادہ تیل اور ہتھیار ہوں گے۔ اسی کے ساتھ چینی فضائیہ تبتی پٹھار اور دیگر اونچی جگہوں سے پرواز کرے گی جہاں انتہائی باریک ہوا ہے‘ جس کی وجہ سے اسلحہ رکھنے پر ان کا زیادہ تیل خرچ ہوگا لیکن بات بس اتنی سی نہیں ہے۔ چین کے پاس ٹیکنالوجی‘ ٹیرین اور تربیت برتری ہے۔ تکنیکی طور پر وہ بھارت سے بہتر ہونے کے ساتھ اپنے دفاع کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ اور غضبناک ہے۔ چینی فضائیہ پی ایل اے کا حصہ رہی ہے۔ کسی بھی فوج کی طرح اچھی طرح سے بنائی گئی ہے جس میں ضروریات کے سارے سازوسامان ہیں۔ چین کے معاشی طور پر ابھرنے کے بعد خلیجی جنگ کے دوران اس نے اپنی بحریہ اور فضائیہ کو تیزی سے جدید بنانا شروع کیا تھا۔ آج ان کی فضائیہ اپنی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کررہی ہے اور بھارت پر چین کو سب سے بڑی سبقت اس کی دیسی دفاعی مینوفیکچرنگ کی بنیاد پر ہے۔ مینوفیکچرنگ سہولت کی وجہ سے چین کو درکار اسلحہ کی فراہمی اُس کے اپنے ملک سے ہی ہوگی جبکہ بھارت درآمد شدہ ہتھیاروں پر انحصار کرتا ہے اور جنگ کی صورت چین کی سائبر و خلائی صلاحیتوں کا جواب بھی بھارت کے پاس نہیں ہے۔ ایسی صورت میں چین سے پنجہ آزمائی دانشمندی نہیں ہوگی ۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر شاکر راحت۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)