کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں

کوئی ایک مسئلہ ہو تو سنایا جائے اس ملک کو تو درجنوں ایسے مسائل درپیش ہیں کہ جن پر ایک لمبی بحث و مباحث کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے البتہ د و تین ایسے امور ہیں کہ جو حکومت کی فوری توجہ کے مستحق ہیں کہ ان کا تعلق براہ راست اس ملک کے عوام اور ان کے مستقبل کے ساتھ ہے اس میں تو کوئی دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں کہ کراچی کے اندر گز شتہ تین برسوں میں جو عمارتیں گریں اس کے نتیجے میں درجنوں افراد لقمہ اجل ہوئے یہ عمارتیں بغیر نقشے پاس کئے بنائی گئی تھیں اور ان میں سے اکثر ان اراضیات پر تعمیر کی گئی تھیں کہ جو پبلک پارک یا کسی کھیل کے میدان کے لیے خالی رکھی گئی تھیں اس بات کا پتہ لگانا بھلا کونسا مشکل کام ہے کہ وہ کون لوگ تھے

 

جنہوں نے اس قسم کی تعمیرات کی اجازت دی اور انہوں نے یہ اجازت کن سیاسی رہنماﺅں یا پارلیمانی ارکان کی سفارش پر دی یہ سب لوگ ان حادثوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی ہلاکت کے برابر کے ذمہ دار ہیں اور زخمی ہونے والوں کے بھی ان سب کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی ضروری ہے جب تک ان معاملات میں اس قسم کا سنگین قدم نہیں اٹھایا جائے گا تو اس نوعیت کے حادثات تواتر سے ہوتے رہیں گے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کراچی کے اندر گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں جو لوگ اس کے ارباب بست و کشاد رہے ہیں کیا ان کے ناموں سے لوگ بے خبر ہیں ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتااکثر ماہرین کا یہ خیال ہے

 

کہ کراچی کے حالات اس وقت درست ہوں گے جب سمندر کا پانی میٹھا کرنے کے پلانٹ نصب کیے جائیں گے جب کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی تشکیل نو کی جائے گی جب کراچی میں ریسائکلنگ متعارف کرائی جائے گی جب وہاں جرم اور سیاست کا گٹھ جوڑ ختم کیا جائے گا جب وہاں ایک اربن پولیس کا علیحدہ سٹرکچر قائم کیا جائے گا جس میں صرف اور صرف میرٹ پر پولیس کی بھرتی کی جائے گی ان مقاصد کے حصول کی راہ میں کافی مشکلات نظر آرہی ہیں اور اس کی وجہ یہ نظر آ رہی ہے کہ بقول کسے ان کی درستی فیصلہ سازوں کے مفاد میں نہیں ہے

 

مثلا ا ڈی سیلینیشن پلانٹ لگنے سے واٹر مافیا روزگار سے محروم ہو جائے گا بااختیار شہری حکومت کراچی کے کسی بھی سیاسی گروپ کے مفاد میں نہیں کراچی میں جتنے بھی سیاسی گروپس ہیں ان سب کے رہنماو¿ں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس ملک کے دشمن کو بخوبی علم ہے کہ اگر پاکستان کو تباہ کرنا ہے تو اس کی معاشیات پر کاری ضرب لگائی جائے اور اسے یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کراچی ہی پاکستان کی معاشی طور پر شک رگ ہے کہ جس کو کاٹ کر یا کمزور کے کر وہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے لہذا اگر کراچی کے تمام سیاسی گروپس اس حقیقت کو مان کر اپنے اپنے چھوٹے موٹے اختلافات بھول کر کراچی کی بہتری اور اس ملک کی بھلائی اور استحکام کے لیے آپس میں تعاون کریں تو یہ اس ملک کے لیے بہتر ہوگا ۔

 

ہائر ایجوکیشن کمیشن گزشتہ کئی برسوں سے اس ملک کے سکالرز کوہر سال سرکاری خرچہ پر بیرون ملک اپنے اپنے مضامین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے بھجوا رہا ہے۔ایک خبر کے مطابق اس نے جو 132 سکالرز اس مقصد کے لئے بیرون ملک بھجوائے تھے ان میں 52 تو فیل ہو کر واپس آگئے ہیں جبکہ80 ایسے سکالرز ہیں کہ جو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ملک واپس نہیں آئے ضمن میں کئی سوال اٹھتے ہیں اولاً تو یہ کہ کیا پی ایچ ڈی کرنے کےلئے جو سکالرز ہائر ایجوکیشن کمیشن منتخب کرتا ہے وہ واقعی اس ڈگری کو حاصل کرنے کے اہل بھی ہوتے ہیں یا ان کے انتخاب میں بھی دوسرے محکموں کی طرح ڈنڈی ماری جاتی ہے یا کوئی سیاسی اثرورسوخ قبول کیا جاتا ہے یا استعمال کیا جاتا ہے نظر تو یہ آرہا ہے

 

کہ جو لوگ و وہاں جا کر وہیں کے ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملک واپس آنے سے انکار کر دیا ہے وہ دراصل پی ایچ ڈی کرنے نہیں گئے تھے بلکہ غیر ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنے گئے تھے اور اور یہ کہ انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پی ایچ ڈی کرنے کی اس سکیم کو غیر ملک میں سکونت اختیار کرنے کیلئے بطور زینہ استعمال کیا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن اس قسم کے سکالرز کی وہ ضمانت ضبط کر رہا ہے جو وہ غیر ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانے کے وقت بطور پراپرٹی یا بانڈ اس کے پاس لکھ کر جمع کرا دیتے ہیں کہ اگر وہ واپس نہ آئے تو ان کی اس ضمانت کو ہائر ایجوکیشن کمیشن ضبط کر سکتا ہے

 

قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ اس معاملے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پارلیمنٹ کو مطلع کرے کہ اس ضمن کتنے سکالرز کی ضمانت میں رکھی گئی پراپرٹی کو ضبط کیا گیا اور اس کی مالیت کیا تھی ہائر ایجوکیشن کمیشن اس بات کی بھی انکوائری کرے کہ آخر 50 سے زیادہ کی تعداد میں ہمارے سکالرز بیرون ملک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے میں کیوں ناکام ہوئے ہیں کیا ان کی سلیکشن میں کوئی سقم رہ گیا تھا پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ان 132 سکالرز پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ٹیکس دہندگان سے وصول کی جو رقم خرچ کی ہے وہ 955 ملین روپے بنتی ہے ۔ اس حوالے سے ٹھوس پالیسی سامنے آنی چاہئے کہ سرکاری خزانے پر بے جا بوجھ کا مستقبل میں خاتمہ کیا جائے۔