جس وقت یہ کالم چھپے گا اس وقت تک دوحہ قطرمیں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات کا کوئی سر پیر نکل آیا ہوگا اگر ان مذاکرات میں پھر کوئی ڈیڈلاک ہوتا ہے تو یہ بدقسمتی ہو گی اگر ان مذاکرات کے بعد امن کے لئے کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے تو اسے ہم ایک معجزہ کہیں گے اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے بدقسمتی سے ایک عرصہ دراز سے افغان حکومت ‘طالبان اور امریکن ایلچی کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ کبھی کابل میں چل رہاہے تو کبھی اسلام آباد تو کبھی عرب امارات میں پر معاملات چونکہ زیادہ گنجلک ہیں ان کا فوری طور پر نتیجہ نکلنا محال نظر آتا ہے لگ یہ رہا ہے کہ ابھی تک دونوں فریقین ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے اور وہ اس بات کی ٹھوس گارنٹی چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ان میں تحریری طور پر طے ہو اس پر پھر بعد میں من و عن تحریر میں وضع کر دہ ٹائم ٹیبل کے مطابق عملدرآمد کیا جائے اگر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات رنگ لاتے ہیں
اور افغانستان میں امن کی بحالی کا راستہ کھولتے ہیں تو یہ یقینا ایک بہت بڑا معجزہ ہوگا ‘افغانستان میں افغان عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کے ذریعے جو بھی حکومت برسراقتدار آئے گی وہ یقینا افغانستان کے معاملات میں بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گی بعض بیرونی ممالک بشمول بھارت کب یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو کیونکہ اگر افغانستان میں واقعی ایک جمہوری حکومت قائم ہو جاتی ہے تو پھر بھارت کو بھلا کب موقع ملے گا کہ وہ اس کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو پھیلائے اب بات چونکہ افغانستان کے امور کی چل نکلی ہے تو کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم تھوڑا پیچھے تاریخ میں چلے جائیں اور اپنے قارئین کی یاد دہانی کے لئے چند حقائق بیان کریں اگر آپ ماضی پر ایک نظر ڈالیں تو تھوڑے عرصے کو چھوڑ کر کہ جب بیرونی مداخلت کی وجہ سے افغانستان یورش کا شکار تھا
اور وہ اپنے غموں میں مبتلا تھا زیادہ تر عرصے میں افغانستان کی سرزمین کو بھارت نے بھرپور طریقے سے استعمال کیا تب ہی تو حددرجہ مجبور ہو کر افواج پاکستان نے نہایت معقول فیصلہ کیا کہ کیوں نہ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگائی جائے اور جگہ جگہ فوجی قلعے تعمیر کئے جائیں جن میں فوجی دستے تعینات کئے جائیں جو 24 گھنٹے پاک افغان بارڈر پر کڑی نظر رکھیں تاکہ اس راستے سے بھارت یا ہمارا کوئی اور دشمن ملک پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کے لئے ایجنٹ داخل نہ کرے نہایت قلیل عرصے میں باڑ لگانے کا یہ منصوبہ مکمل ہونے والا ہے اس باڑ کے لگانے سے کافی حد تک پاکستان کے اندر پاک افغان بارڈر کے ذریعے دہشت گردوں کا داخلہ نہایت کم ہو گیا ہے پر بات یہاں صرف باڑ لگانے سے ختم نہیں ہونی چاہئے ہم پہلے بھی کئی مرتبہ اس بات پر زور دے چکے ہیں
کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امیگریشن کا وہ نظام ہونا چاہئے جو انگلستان اور امریکہ نے ہمارے لئے بنا رکھا ہے افغانستان میں بسنے والے والے افغانی ہمارے بھائی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ایک ہی مذہب میں جڑے ہوئے ہیں لاتعداد افغانی پاکستان میں مستقل طور پر آباد ہیں اور اسی طرح لاتعداد پاکستانی افغانستان میں رہتے ہیں اور ان کا روزانہ آنا جانا ایک معمول کا کام ہے پر اس معمول کے کام کو بھی ایک ضابطہ کے اندر لانا ضروری ہے تاکہ ان کے معمولات زندگی بھی متاثر نہ ہوں اور ہمارے دشمنوں کو بھی یہ موقع نہ ملے کہ وہ ہمارے بارڈر سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائیں ‘پاکستان اور افغانستان آنے جانے کے لئے کوئی فول پروف قواعد یا قانون وضع کئے جائیں۔