موٹروے پر پچھلے دنوں جو افسوسناک سانحہ پیش آیا اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جن ملزمان نے مبینہ طور پر اس جرم کا ارتکاب کیا وہ عادی مجرم تھے اور اسی قسم کے جرائم میں پہلے بھی ملوث رہے تھے اور یہ کہ وہ سزا یافتہ بھی تھے ان حقائق کے پیش نظر کئی سوالات اٹھتے ہیں اگر یہ بات سچ ہے کہ وہ اسی قسم کا جرم 2013 ءمیں بھی کر چکے تھے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اس جرم میں اتنی کم سزا کیوں ملی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حسب روایت پولیس کے محکمہ استغاثہ والوں کے متعلقہ افراد نے ان ملزموں کے خلاف مقدمے کی صحیح طریقے سے پیروی نہیں کی ‘ظاہر ہے کہ جب کسی وجہ سے استغاثہ ملزم کے خلاف ٹھوس شہادتیں پیش کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرے تو پھر سخت سزا نہیں دی جا سکتی اور شک اور شبہ کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی ملا کرتا ہے ‘سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں جب متذکرہ بالا ملزموں نے اسی قسم کا ایک جرم کیا اور ان کو کما حقہ سزا نہ دی گئی تو اس وقت کی پولیس کے متعلقہ افسران نے اپیلٹ کورٹ میں اپیل کی ہے
اور اگر نہیں کی تو اس کی وجہ کیا تھی اس قسم کے خطرناک مجرموں کی نقل و حرکت پر پولیس ہر وقت کڑی نظر رکھتی ہے کیا ان ملزمان پر بھی گہری نظر رکھی گئی تھی اور جب وہ اپنی جائے سکونت ایک ضلع سے دوسرے ضلع بدلتے تھے تو متعلقہ ضلعی پولیس اس ضلع کی پولیس کو اطلاع کرتی تھی کہ جس میں وہ شفٹ ہو جایا کرتے تھے موجودہ کیس کی جو پولیس افسر یا جوڈیشل افسر انکوائری کرے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ مندرجہ بالا سوالات کے جوابات کا بھی کھوج لگائے اور پھر یہ رپورٹ پارلیمنٹ کے فلور پر پیش کی جائے اور اس کی روشنی میں عوامی نمائندے ضرور ی اقدامات اٹھائیں اور جہاں جہاں ضروری ہو وہاں قانون سازی کی جائے ‘کوئی یہ بات مانے یا نہ مانے پر یہ ایک حقیقت ہے اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سنگین قسم کی سزائیں دینے سے ٹھیک ہے
جرائم بالکل ختم تو نہیں ہوتے پر ان کی شرح میں ضرور کمی واقع ہو جاتی ہے اور اگر اس قسم کے گھناو¿نے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو عوام کے سامنے سزا دی جائے تو معاشرے پر اس کے اتنے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے جتنے کے مثبت اثرات ہوتے ہیں اس ضمن میں اگر کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو وہ فورا ًسے پیشتر کی جائے اس مسئلے پر حکومت کی خصوصی توجہ درکار ہوگی کیونکہ پنجاب حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امسال یعنی جنوری 2020 ءسے لے کر تا دمِ تحریر صوبے میں دو ہزار سے زیادہ تشددکے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اس دلخراش سانحہ کے بعد اب ذرا ذکر ہو جائے ا پوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا کہ جو تین چار دنوں کے بعد اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ہے ایک اطلاع کے مطابق اس کا انعقاد زرداری ہاو¿س میں ہونا تھا پر اب شاید اسلام آباد ہوٹل میں کانفرنس منعقد کی جائے
جگہ کیوں بدلی گئی ہے اس کی اصل وجہ بھی بہت جلد سامنے آجائے گی لیکن شنید یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹی کے بعض ارکان اس کا انعقاد کسی ایسی جگہ پر نہیں چاہتے تھے کہ جس سے اس کانفرنس پر کسی خاص پارٹی کی چھاپ لگ جائے ‘سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد میں عجلت نہ کی جاتی اور کم از کم مزید ایک برس کا انتظار کر لیا جاتا تو پھر تو شاید کوئی نہ کوئی بات بن جاتی پر اس وقت اس ملک کے عام آدمی کی سوچ میں موجودہ حکومت کو کچھ مزید عرصہ مہلت دینا بہت ضروری ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ اس نے عوام کے ساتھ جو وعدے وعید کر رکھے ہیں اسے پورا کرنے میں وہ کس قدر مخلص ہے۔اگر موجودہ حالات میں حکومت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کا فی الحال امکان نظر نہیں آتا تو پھر نئی حکومت کس کی بنے گی۔ کیونکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے بیشتر رہنماﺅں کے خلاف کرپشن کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلطیاں کر چکی ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کو درپیش مسائل پر غور کے بعد ان کا ممکنہ حل تجویز کیاجائے گا۔