حالات بگڑتے جا رہے ہیں

 یہ دن بدن ہمارے معاشرے کے مجموعی رویے میں تشدد کے عنصر کی جھلک کیوں نظر آرہی ہے ہم میں برداشت کا مادہ کیوں عنقا ہوتا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم ہاتھ اور مکے کا استعمال کیوں کر رہے ہیں اگلے روز وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے سامنے ایک ایم پی اے کے شوہر نے ایک مقامی جج کو مکّے مار کر اس کے ناک کی ہڈی توڑ دی اس کی آنکھ اور ہونٹ بھی زخمی ہوئے اس واقعے کی وجہ ٹریفک سگنل پر گاڑیوں کی کراسنگ پر ان میں جھگڑا تھا ۔اس ضمن میں مرکزی وزیر فواد چوہدری صاحب کا یہ بیان بھی بڑا معنی خیز ہے کہ متشدد سوچ ہر مسئلہ کا حل تشدد کو سمجھتی ہے اس معاملے میں اگر میڈیا پر ماہرین نفسیات تفصیل سے روشنی ڈالیں اور اس روش کو ختم یا کم کرنے کےلئے ٹھوس تجاویز پیش کریں تو ان کی یہ کاوش یقینا اس قوم اور ملک پر ایک بہت بڑا احسان تصور ہوگی کہ جس کے لوگوں میں برداشت کا مادہ دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔

 اس جملہ معترضہ کے بعد ہم ان درجنوں ای میل پیغامات کی طرف آتے ہیں جو ہمیں اپنے قارئین وقتاً فوقتاًبھجواتے رہتے ہیں اورجن میں وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس معاملے پر بحث و مباحث ہونی چاہئے کہ کیا ریاست اپنے فرائض کو کماحقہ نباہ رہی ہے یا اس میں امپرومنٹ کی گنجائش ہے اس بات میں دو آراءہو نہیں سکتیں کہ بعض امور ایسے ہیں کہ جن میں حکومت وقت عوام کی بعض بنیادی ضروریات کی ضامن ہوا کرتی ہے۔اگر ایک تنقیدی نظر ان معاملات پر ڈالی جائے تو یہ جاننے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے جب سے یہ ملک بنا ہے ارباب اقتدار نے ان بنیادی ذمہ داریوں کا کما حقہ خیال نہیں رکھا اس ملک میں ہمیشہ سے زندگیاں ارزاں رہی ہیں کیا روزانہ لاتعداد لوگ ہسپتالوں میں طبی عملے کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے اور ہماری سڑکوں پر امن عامہ کی خرابی اور ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہ کرانے کی وجہ سے لقمہ اجل نہیں بن رہے ہیں

 کراچی کے تازہ ترین حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام دربدر ہیں اور اس ضمن میں حکومت کو ان کی رتی بھر بھی پروا نہیں اگر ارباب بست و کشاد کو ان کا خیال ہوتا تو وہ یہ دن کیوں دیکھتے جہاں تک لوگوں کی عزت کی حفاظت کا تعلق ہے یہ جو آئے دن ملک میں گینگ ریپ اور عصمت دری کے واقعات جس شدت سے ہو رہے ہیں کیا یہ اس حقیقت کی غمازی نہیں کرتے کہ اس ضمن میں بھی حکام بالا اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نہیں نبھا رہے۔ ہمارے دشمن نے یہ جان لیا ہے کہ عسکری محاذ پر وطن عزیز کو شکست نہیں دی جا سکتی اس لیے اب اس کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ اس ملک کے اندر داخلی انتشار پیدا کیا جائے اور اس ضمن میں اس سے جتنا بھی ممکن ہو سکتا ہے وہ اپنے مذموم عزائم میں مصروف ہے اس ضمن میں آرمی چیف کا یہ بیان بڑا معنی خیزہے کہ دشمن نے ہمارے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کر رکھی ہے اس ملک میں سوشل میڈیا اس قدر مادر پدر آزاد ہو چکاہے

 کہ اب وہ کسی کے ہاتھ نہیں آ رہا اگر ایک طرف اس پر اخلاق باختہ وڈیوز وائرل کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب ایسی وڈیوز کثرت سے دکھلائی جا رہی ہیں کہ جن سے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے ‘ اس مقصد کے لئے حکومتی ادارے بھی موجود ہے جن کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سوشل میڈیا پر کوئی ایسا موادنہ دکھایا جائے کہ جو اس ملک میں داخلی انتشار کا سبب بنے پر یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ لکھنی پڑتی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول میں اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں وہ خانہ پری کےلئے چھوٹے موٹے معاملات میں ہاتھ تو ضرور ڈالا جاتا ہے تاکہ حکومت کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاسکے

 تاہم جہاں اسے بڑا ہاتھ ڈالنا چاہئے وہاں وہ بالکل خاموش ہیں اس سے پیشتر کہ ہم اس کالم کا اختتام کریں ایک نہایت اہم بات کی نشان دہی ضروری ہے پچھلے دنوں موٹروے پر جو افسوس ناک واقعہ پیش آیا اس کے دو مبینہ ملزمان کی تصویریں ٹیلی ویژن سکرین پر دکھلا کر یا اخبارات میں چھپوا کر پولیس والوں نے ایک نہایت سنگین قانونی غلطی کی ہے جس سے ملزمان کے خلاف اس کا کیس کمزور پڑ سکتا ہے وہ اس طرح کہ جب تک ملزمان کی شناخت پریڈ جیل کے اندر نہ کروا دی جاتی اس سے پہلے ان کے فوٹو کو مشتہر کر دینا قانونی طور پر غلط قرار دیا جا رہا ہے۔ملزمان کے وکیل اس باریک قانونی نقطے سے فائدہ اٹھا کر اس مقدمے کی کاروائی کے دوران ان ملزمان کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔